عقیل یوسفزئی
خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ سہیل آفریدی کی زیر قیادت لاہور جانے والے تحریک انصاف کے وزراء اور لیڈروں نے اپنے سخت لہجے اور جذبات کے باعث ملک میں موجود کشیدگی کو مزید گہرا کردیا ہے اور ماہرین کا خیال ہے کہ تحریک تحفظ آئین اور پی ٹی آئی کے سنجیدہ لیڈرشپ نے مجوزہ مذاکرات کی جو کوششیں شروع کی تھیں حالیہ ” ایونٹ” سے ان کوششوں کا سخت دھچکا لگا ہے ۔
اگر چہ صوبائی حکومت کے ترجمان شفیع جان نے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا ہے کہ محمود خان اچکزئی اور دیگر کو مذاکرات کا اختیار حاصل ہے تاہم علیمہ خان ، سہیل آفریدی اور بعض دیگر کے بیانات سے نہیں لگ رہا کہ معاملات درست ہو پائیں گے ۔
یہ بات خوش آئند ہے کہ وزیر اعلیٰ کے قافلے کی راہ میں عملاً کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی گئی تاہم وہ مسلسل بیانات دیتے رہے کہ پنجاب حکومت رکاوٹیں کھڑی کرتی رہی ہیں ۔
وزیر اعلیٰ اور وزراء غیر ضروری طور پر پنجاب اسمبلی گئے ۔ وہاں وزیر اعلیٰ کے سیکیورٹی سکواڈ اور اسمبلی سٹاف کے درمیان نہ صرف تلخ کلامی ہوئی بلکہ بات باقاعدہ ہاتھا پائی تک پہنچ گئی اور خیبرپختونخوا کے ایک دو وزراء نے طیش میں آکر نازیبا الفاظ بھی استعمال کئے جس کی وجہ سے ان پر سوشل میڈیا کے ذریعے شدید تنقید کی گئی ۔
پریس ٹاک کے دوران بھی ناخوشگوار واقعات رونما ہوئے ۔ ایک موقع پر صوبائی وزیر مینا خان آپے سے باہر ہوگئے تو دوسری طرف وزیر اعلیٰ نے ایک صحافی کو ” پلانٹیڈ” کہنے سے بھی گریز نہیں کیا ۔
جس وقت یہ سب کچھ جاری تھا اسی دوران پارٹی چیئرمین بیرسٹر گوہر کی یہ بات قومی میڈیا پر چل رہی تھی کہ مذاکرات سے متعلق ” غیر سنجیدہ گفتگو” سے گریز کیا جائے ۔
اس سلسلے میں بجا طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ شاید مرکزی قیادت علیمہ خان اور خیبرپختونخوا کی کابینہ میں شامل انصاف سٹوڈنٹس فیڈریشن کے جذباتی لیڈروں کے سامنے بے بس ہیں اور پارٹی قیادت کے درمیان اہم ایشوز پر بنیادی اختلافات پائے جاتے ہیں ۔

