عقیل یوسفزئی
سابق وزیراعظم عمران خان کے نام سے ایک بیان سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے پاکستان سے افغان مہاجرین کی واپسی کی پالیسی اور پراسیس کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور پاکستان کی اس پالیسی کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کے بقول ان کے منفی اثرات مرتب ہوں گے. اس تفصیلی بیان کو جہاں ان کی پارٹی نے سوشل میڈیا نیٹ ورکس پر پورے اہتمام کے ساتھ پھیلایا وہاں افغان اور پاکستانی طالبان کے اہم عہدے داروں سمیت بعض قوم پرستوں نے بھی ” ویلکم” کیا جو کہ حیرت کی بات ہے. اس ٹویٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے وزیر اطلاعات و نشریات مرتضیٰ سولنگی اور وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے ایک انٹرویو اور بیان میں کہا کہ ان کو یہ بات سمجھ میں نہیں آرہی کہ جو شخص جیل میں قید ہیں انہوں نے ایسا بیان کیسے جاری کیا. ان کے مطابق یہ طے کرنا باقی ہے کہ اس جاری کردہ بیان کا پس منظر کیا ہے تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ غیر قانونی طور پر رہائش پذیر افغانیوں کسی بھی غیر ملکی کو نہ تو پاکستان میں پہلے کی طرح رہنے دیا جائے گا اور نہ ہی کسی غیر ملکی کو پاکستان کے اندر کسی سیاسی سرگرمی کی اجازت دی جائے گی. یہی بات پاکستان کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر بھی پوری تفصیل کے ساتھ گزشتہ روز پشاور کے اپنے دورے کے دوران بھی کہہ چکے ہیں.
یہ تو طے ہے کہ غیر قانونی طور پر رہائش پذیر مہاجرین کی واپسی پر کوئی رعایت اور لچک دکھانے کا کوئی امکان نہیں. ایسے میں سوچنے کی بات یہ ہے کہ سابق وزیراعظم کو اس نوعیت کی تفصیلی بیان کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اس کے متعدد اسباب ہوسکے ہیں تاہم اس بیان سمیت بعض دیگر بیانات یا الزامات سے دو باتیں بلکل واضح ہوگئی ہیں. ایک تو یہ کہ بعض دیگر سیاسی جماعتوں یا گروپوں کی طرح مذکورہ پارٹی اور لیڈر نے بھی “پشتون کارڈ” استعمال کرنا شروع کردیا ہے. دوسرا یہ کہ اس کوشش یا بیانیہ کا مقصد عام افغان عوام کی ہمدردی حاصل کرنے کے علاوہ افغانستان اور پاکستان کےان طالبان کے ساتھ “اظہار یکجہتی” کرنا ہے جو کہ باہمی اشتراک سے پاکستان پر ایک غیر اعلانیہ جنگ مسلط کرچکے ہیں. ایک تیر سے دو شکار کے مصداق اس بیان کے ذریعے قوم پرستوں کی ہمدردی اورتوجہ حاصل کرنے کی کوشش بھی کی گئی ہے. اس تناظر میں کہا جاسکتا ہے کہ یہ بیان محض ایک اتفاق یا رسمی ردعمل نہیں بلکہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ ہے.اس لیے اس کو اسی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے. دوسری جانب اسی پارٹی کے ایک وکیل رہنما نے باجوڑ میں ہونے والے ایک کنونشن میں شرکت کے معاملے کو بہت بڑا ایشو بناتے ہوئے اپنی ٹویٹس میں اس قسم کا تاثر دینے کی کوشش کی جیسے حکومت ان کو گرفتار کرنے کی بجائے خدانخواستہ کوئی جانی نقصان پہنچانے کا پلان بناچکی ہے حالانکہ پولیس نے ان کو پہلے سے درج مقدمات کے پس منظر میں گرفتار کرنے کی کوشش کی.
موصوف نے بھی اپنے لیڈر کے مہاجرین والے بیان کی طرح معمول کی اس سرگرمی کو بھی “پشتون کارڈ” کے طور پر استعمال کیا. مثال کے طور پر انہوں نے اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا کہ پختونخوا کے پشتون اپنے “دشمن” سے لڑنے کی جنگ کو کامیاب بنائیں کیونکہ یہ پاکستان کی جنگ ہے. وغیرہ وغیرہ
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ وکیل رہنما اور ان کے قاید پاکستان کی ریاست اور اس کی پولیس کو دشمن سمجھتے ہیں؟ اور کیا وہ عوام اور اپنے کارکنوں کو 9 مئی کی طرح پھر سے بغاوت اور مزاحمت پر آن دی ریکارڈ اکسارہے ہیں؟ ان دو سوالات کا جواب بدقسمتی سے “ہاں” ہی ہے.
اس لئے اس بیانیہ اور خطرناک طرزِ عمل کو ریاستی اور سیاسی طور پر سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے کیونکہ پاکستان بالخصوص خیبر پختونخوا مزید ایسی “مہمات” اور کشیدگی کے متحمل نہیں ہوسکتے.