سال 2018 میں جب سابقہ حکومت کی جانب سے فاٹا انضمام کا اعلان کیا گیا تو عام طور پر یہ خیال کیا جارہا تھا کہ بہت جلد ہی یہ انضمام ناکامی سے دوچار ہوجائے گا، وجوہات یہ بتائی جارہی تھی کہ گزشتہ کئی عشروں سے قبائلی علاقوں یعنی فاٹا میں دہشت گردانہ کارروائیوں اور بعد ازاں دہشت گردی کے خلاف طویل عرصہ تک جاری رہنے والی جنگ کے دوران انفراسٹرکچر مکمل طور پر تباہ ہوچکی تھی، لاکھوں کی تعداد میں قبائلی عوام بمعہ اہل وعیال اپنے گھروں سے ہجرت کرکے آئی ڈی پیز کیمپوں یا دوسرے شہروں میں کرائے کے مکانات کو منتقل ہوچکے تھے، تعلیمی اداروں کو دہشت گردوں نے بموں سے اڑایا تھا، ہسپتال، مارکیٹ و دوسری سرکاری عمارات کھنڈرات بن چکی تھی اور روزمرہ ضروریات زندگی اور سہولیات نہ ہونے کے برابر تھیں۔ یہ خدشات زمینی حقائق کے عین مطابق تھے اسی لئے وفاقی حکومت نے پاک فوج کی مشاورت سے ضم شدہ قبائیلی اضلاع کی ترقی کے لیے دس سالہ پلان کا اعلان کیا جس کے تحت آئندہ دس سالوں کے دوران قبائیلی اضلاع میں ڈیولپمنٹ کے لئے ایک ہزار ارب روپے خرچ کیے جائیں گے، یہ ایک بہت بڑی رقم ہے اور امید کی جارہی ہے کہ اس سے قبائلی علاقوں کی برسوں سے چلی آرہی پسماندگی اور غربت ختم کرنے میں مدد ملے گی۔ یہ رقم این ایف سی کا 3 فیصد ہے جو کہ وفاق اور تمام صوبوں سے اپنے حصے کے تناسب سے کاٹی جائے گی، اگر چہ صوبہ سندھ اور پنجاب نے ابھی تک اس سلسلے میں کوئی واضح جواب نہیں دیا لیکن وزیر اعظم عمران خان نے امید ظاہر کی ہے کہ یہ مسئلہ بہت جلد حل ہو جائے گا۔ وزیراعظم کی ہدایت پر وزیراعلی خیبرپختونخوا محمود خان نے دس سالہ ترقیاتی پروگرام میں تمام قبائلی اضلاع کو یکساں حصہ دینے کےلئے فزیبیلٹی، پلاننگ اور پی سی ون بنانے کے ساتھ ساتھ ترقیاتی منصوبوں اور حکومتی امور کو تیز تر بنانے کےلئے اے آئی پی بنانے کی ہدایت کی جس کو طویل ہوم ورک کے بعد تقریباً پندرہ مہینوں میں تیار کیا گیا۔ دس سالہ ترقیاتی پروگرام اے ڈی پی اور اے آئی پی دونوں ساتھ ساتھ چلیں گے تاہم اے آئی پی میں وہ منصوبے اور اسکیمیں شامل کئے گئے ہیں کہ جو انتہائی ضروری اور فوری طور پر مکمل کئے جائیں گے۔ اس بڑی رقم کے صحیح استعمال، منصوبوں کے بروقت تکمیل، تمام قبائلی علاقوں کی یکساں نمائندگی اور سیاسی و علاقائی اثر و رسوخ سے بچانے کی خاطر وزیر اعلیٰ محمود خان نے اعلی سطح کی دو علیحدہ علیحدہ کمیٹیاں بنائی ہیں، پہلی کمیٹی ایڈیشنل چیف سیکریٹری کی سربراہی میں کام کرے گی جس کے دوسرے ممبران میں سیکریٹری سی اینڈ ڈبلیو، متعلقہ محکموں کے سیکرٹری، الیون کور سے بریگیڈیئر رینک کا افیسر، ملٹری آپریشن کا نمائندہ، ڈپٹی کمشنر اور پراجیکٹ ڈائریکٹر شامل ہیں۔ یہ اعلی سطحی کمیٹی ضم شدہ قبائیلی اضلاع میں ترقیاتی منصوبوں اور گورننس کی نگرانی کرے گی اور مہینے کے آخر میں وزیراعلی کو رپورٹ دے گی۔
دوسری کمیٹی منصوبوں اور اسکیموں کی نشاندھی کے لئے بنائی گئی ہے جس کا کنوینر ڈپٹی کمشنر ہوگا جبکہ ممبران میں ضلع سے منتخب ایم پی اے، ایم این اے، سینٹر، لائن ڈیپارٹمینٹ، ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر اور پاک فوج کا نمائندہ شامل ہوں گے۔ یہ کمیٹی میرٹ اور ضرورت کی بنیاد پر منصوبوں کی شناخت کرکے اسکی منظوری دے گی تاکہ یہ اسکیمیں کسی ایک شخص، خاندان یا سیاسی جماعت کو نوازنے کی بجائے پورے علاقے کے عوام کے لیے فایدہ مند ہوں۔ پرنسپل سیکرٹری ٹو وزیراعلی خیبرپختونخوا سید شہاب علی شاہ کے مطابق وزیر اعلیٰ محمود خان کی ذاتی کوششوں سے یہ رقم ایک ہزار سے 1325 ارب تک بڑھائی گئی ہے اور صوبہ خیبر پختونخوا نے اپنے حصے سے گیارہ ارب اضافی رقم بھی دی ہے۔ دس سالہ ترقیاتی پروگرام 2019/20 کے تحت 1325 ارب روپے خرچ کئے جائیں گے اس میں تعلیم اور صحت کے لئے سب سے زیادہ رقم رکھی گئی ہے۔
وزیراعلی سیکریٹریٹ کی جانب سے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق تعلیم کےلئے 244 ارب روپے جبکہ صحت کے شعبے کے لئے 139 ارب روپے رکھے گئے ہیں جو کہ بالترتیب 18 اور 11 فیصد بنتی ہے۔ قبائلی اضلاع میں گورننس کے لئے 131 ارب، میونسپل اور شہری ترقی کےلئے 93 ارب، اب پاشی و نہری نظام کے لئے 98 ارب، صنعتی بحالی و ترقی کےلئے 84 ارب، سڑکوں اور شاہراہوں کے لئے 74 ارب، خواتین کے فلاح و بہبود کےلئے 39 ارب، حکومتی دفاتر و خدمات کےلئے 41 ارب، بجلی و توانائی فراہم کےلئے 51 ارب، سماجی فلاح و تحفظ کے لیے 17 ارب، مویشی باغبانی اور ڈیری فارمنگ شعبہ کے لئے 11 ارب، ماہی گیری کی ترقی کےلئے 4 ارب، اقتصادی ترقی اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے کےلئے 22 ارب، جنگلات و ماحولیات کےلئے 30 ارب، مقامی جرگوں کی نشاندھی پر اسکیموں کےلئے 21 ارب، قدرتی گیس کی تلاش و ترسیل کے لیے 41 ارب جبکہ کان کنی اور معدنیات کےلئے 31 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ دس سالہ ترقیاتی پروگرام کے علاؤہ ایکسلیریٹر ایمپلیمنٹںشن پلان 2019/20 کے تحت مختلف منصوبوں کے لیے جو رقم مختص کی گئی ہے اس کی تفصیل کچھ یوں ہے، تعلیم کے کل 42 منصوبوں کے لیے 10690 ملین روپے، صحت کے 29 منصوبوں کےلئے 10110 ملین روپے، شاہراہوں کے 18 منصوبوں کے لیے 5000 ملین روپے، آبپاشی کے 9 منصوبوں کے لیے 3950 ملین روپے، کھیل سیاحت اور امور نوجوانان کے لئے 4130 ملین، زراعت کے 9 منصوبوں کے لیے 1970 ملین، توانائی کے 9 منصوبوں کے لیے 1670 ملین، عدل وانصاف کے 5 منصوبوں کے لیے 3500 ملین، مویشی باغبانی کی 4 منصوبوں کے لیے 1100 ملین کان کنی و معدنی ترقی کے 4 منصوبوں کے لیے 750 ملین روپے پینے کے صاف پانی کے 3 منصوبوں کے لیے 1330 ملین انڈسٹری و کاروبار کی ترقی کے 3 منصوبوں کے لیے 1200 ملین ریلیف و بحالی کے 3 منصوبوں کے لیے 8870 ملین اوقاف و حج کے 2 منصوبوں کے لیے 300 ملین میونسپل و شہری ترقی کے 1 منصوبہ کے لئے 600 ملین سماجی بہبود کے کل 3 منصوبوں کے لیے 760 ملین اور گورننس کے لئے 1900 ملین روپے رکھے گئے ہیں۔ اگر ایک جانب قبائیلی اضلاع کے لئے اتنی بڑی رقم کا اعلان خوش آئند بات ہے تو دوسری جانب حکومت اور اداروں کی زمہ داری ہے کہ اس رقم کو شفافیت کے ساتھ خرچ کرنے اور ترقیاتی منصوبوں کی بروقت تکمیل کو یقینی بنائیں تاکہ قبائیلی اضلاع کے عوام ترقی و خوشحالی کے لحاظ سے ملک کے دوسرے شہروں کے برابری پر آجائیں، کیونکہ کہ ماضی میں حکومتوں کی عدم توجہ اور ناقص منصوبہ بندی کے باعث کئی بڑے منصوبے ناکامی سے دوچار ہوئے ہیں۔