زوال و عروج کا نیا سفر

تمام تر اندرونی اور بیرونی سازشوں ، لابنگ ، پروپیگنڈے اور تصادم پر مبنی کوششوں کے باوجود سال 2024 کے دوران پاکستان زندگی کے تقریباً ہر شعبے میں اڑان بھر کر آگے بڑھتا دکھائی دیا اور شاید اسی کا نتیجہ ہے کہ گزشتہ چند مہینوں کے دوران نہ صرف یہ ریکارڈ تعداد میں غیر ملکی سربراہان اور وفود نے پاکستان کے دورے کیے بلکہ حال ہی میں ورلڈ بینک ، آئی ایم ایف اور متعدد دیگر عالمی اداروں نے پاکستان کو سیاسی اور معاشی استحکام کی جانب تیزی سے گامزن ملک قرار دے دیا ہے ۔

15 اور 16 اکتوبر کو اسلام آباد میں ہونے والی شنگھائی تعاون کانفرنس میں روس اور چین کے وزراء اعظم سمیت 7 وزرائے خارجہ اور دیگر اعلیٰ حکام کی شرکت نے پاکستان کی اہمیت اور خارجہ تعلقات سے متعلق بہت سے حلقوں کی خواہشات پر پانی پھیرتے ہوئے بہت سے تجزیے اور پروپیگنڈے غلط ثابت کردیے ہیں ۔ بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر کی ” پازیٹیو انٹری اور ریمارکس” نے رہی سہی کسر بھی پوری کردی جبکہ آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کے ساتھ دوسروں کے علاوہ چین اور روس کے وزرائے اعظم کی خصوصی ملاقاتوں نے ان ” عناصر ” کو سکتے کی حالت سے دوچار کیا جو کہ پاک فوج کے اندر بغاوت کے خواب دیکھ کر لوگوں کو گمراہ کرتے رہے ۔

دوسری جانب پاکستان کی مین سٹریم سیاسی جماعتوں کے قائدین کے درمیان جو رابطہ کاری اور ہم آہنگی پیدا ہوگئی ہے وہ بھی شرپسندی اور فتنہ گردی پر عمل پیرا قوتوں خصوصاً 9 مئی کے واقعات کی ذمہ دار ایک سیاسی پارٹی کے لیے نیک شگون ثابت نہیں ہورہی ہے ۔ اپر سے جیل میں قید ایک ” مقبول لیڈر” کے ساتھ تمام تر لابنگ کے باوجود اس کے سابق سسرالیوں یعنی انگلینڈ نے اکسفورڈ یونیورسٹی کی چانسلر شپ کے معاملے پر جو ” سلوک ” کیا وہ بھی ڈپریشن بڑھنے کی ایک بڑی وجہ بنی کیونکہ موصوف کا بطور امیدوار نام بھی جاری کردہ لسٹ میں شامل نہیں ہے ۔ اس پر ستم یہ کہ ان کی اپنی پارٹی کو بعض ایشوز پر بدترین نوعیت کے اختلافات کا سامنا ہے اور مرکزی قائدین اب کھلے عام مین سٹریم میڈیا پر ایک دوسرے پر الزامات لگانے لگے ہیں ۔ خیبر پختونخوا کی حکومت کا ” مورچہ ” بھی اب پہلے کی طرح متحرک دکھائی نہیں دیتا اور وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور نے پولیٹیکل کمیٹی میں یہ کہہ کر مزید ” قربانی ” دینے سے معذرت کرلی ہے کہ بانی چیئرمین کی رہائی کا ” ٹھیکہ” صرف ان کی حکومت اور پارٹی نے نہیں لے رکھا ہے ۔

اس تمام تر صورتحال کا خلاصہ یہ بنتا ہے کہ تمام معاملات پر ریاست اور اس کے سنجیدہ سیاست دانوں کی گرفت مضبوط ہوگئی ہے جبکہ شر پسندی اور فتنہ گردی کی حامل قوتیں بوجوہ دن بدن نہ صرف کمزور ہوتی جارہی ہیں بلکہ یہ بہت جلد ایک دوسرے پر ہی حملہ آور ہوتی دکھائی دیں گی ۔

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket