عقیل یوسفزئی
خیبر پختونخوا کو پی ٹی آئی نے تجربہ گاہ میں تبدیل کرکے رکھ دیا ہے اور اس کی بڑی مثال یہ ہے کہ نئے وزیر اعلیٰ کے حلف اور چارج سنبھالنے کے باوجود ایک ہفتہ ہوئے صوبہ کابینہ سے محروم ہے جس کے باعث پورا نظام ٹھپ ہوکر رہ گیا ہے ۔ وزیر اعلیٰ نے ضد پکڑی ہے کہ وہ جیل میں بند اپنے بانی کی رہنمائی اور مشاورت کے بغیر کابینہ تشکیل نہیں دیں گے حالانکہ پارٹی کے سیکرٹری جنرل سلمان اکرم راجہ کا یہ بیان ریکارڈ پر موجود ہے کہ عمران خان نے سہیل آفریدی کو وزیر اعلیٰ نامزد کرکے ان کو کابینہ تشکیل دینے کا اختیار دیا ہے ۔
یہ ایک سنگین مذاق سے بڑھ کر اور کچھ بھی نہیں کہ اگر ایک طرف ملاقات کی اجازت نہ ملنے کے بہانے صوبائی حکومت کابینہ سے محروم ہے تو دوسری جانب وزیر اعلیٰ نے نان ایشو کی بنیاد پر بلٹ پروف گاڑیوں کے معاملے کو سب سے بڑا مسئلہ بنادیا ہے اور اس پر پولیٹیکل پوائنٹ اسکورنگ کی جارہی ہے ۔ اپر سے وزیر مملکت طلال چوہدری نے بھی اس معاملے پر تمام توجہ مرکوز کر رکھی ہے حالانکہ دونوں کو یہ علم ہے کہ صوبے کے اصل مسائل کیا ہیں اور دہشت گردی نے کس نوعیت کے چیلنجز پیدا کیے ہیں ۔
وزیر اعلیٰ نے ایک اور پولیٹیکل پوائنٹ اسکورنگ کے طور پر 25 جولائی کو خیبر میں ایک جرگہ بلانے کا اعلان بھی کردیا ہے ۔ یہ وہی دن ہے جب استنبول ترکی میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان دوحہ معاہدے کے دوسرے سیشن کا انعقاد کیا جائے گا ۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ صوبائی حکومت محض مزاحمت اور تصادم کی پالیسی پر عمل پیرا رہتے ہوئے عوام اور صوبے کی بہتری کے لیے کچھ بھی نہیں کرپارہی اور وفاقی حکومت کی دلچسپی بھی عملاً نہ ہونے کی برابر ہے ۔
دوسری جانب پاور کاریڈورز میں افغانستان کے ساتھ پولیٹیکل انگیجمنٹ کے لیے بعض اہم اقدامات کی اطلاعات زیر گردش ہیں جن میں قومی وطن پارٹی کے چیئرمین اور سابق وزیر اعلیٰ آفتاب احمد خان شیرپاؤ کے ایک اہم کردار پر مشاورت زیر بحث ہے ۔ اس پس منظر میں خیبرپختونخوا کے موجودہ گورنر فیصل کریم کنڈی کو ہٹاکر انہیں کچھ اور ذمہ داریاں سونپنے کی اطلاعات بھی زیر گردش ہیں جبکہ ایسا کرنے سے قبل موجودہ صوبائی حکومت کے خاتمے کی ایک پلاننگ پر بھی اسلام آباد میں غور جاری ہے ۔
خلاصہ یہ ہے کہ خیبرپختونخوا میں آیندہ چند دنوں کے دوران بہت ” توڑ پھوڑ” متوقع ہے ۔


