پشاور میں افغان قالین کی صنعت

تحریر: موسیٰ کمال یوسفزئی

پاکستان میں افغان قالین کی بڑی مانگ ہے اور اکثر دوسرے شہروں سے خریدار افغان قالین خریدنے پشاور کا رخ کرتے ہیں۔ افغان قالین خیبر پختونخوا خاص کر پشاور میں کافی مقبویت حاصل کرچکے ہیں اور صوبائی دارلحکومت میں افغان قالین کی صنعت سے کافی افراد وابستہ ہیں۔ پشاور میں افغانستان کی یہ صنعت کیسے جگہ بنانے میں کامیاب ہوئی اس کی تاریخ افغان جنگ سے وابستہ ہے۔ افغانستان میں قالین بنانے کا ہنر حقیقت میں ازبک اور تاجک قبیلے سے تعلق رکھنےوالے لوگوں کے پاس تھا، جو جنگ سے پہلے وہاں افغانستان میں قالین سازی کا کام کرتے تھے۔یہ لوگ افغانستان کے مختلف  غیر پشتون صوبوں میں رہتے تھے جب افغانستان میں سویت یونین کی جنگ شروع ہوئی تو بڑے پیمانے پر لوگوں نے جان بچانے کیلئے مختلف ممالک کا رخ کیا جن میں  پاکستان سرفہرست ہے جہاں بڑی تعداد میں افغان مہاجرین آئے۔

مہاجرین کیلئے حکومت پاکستان نے خصوصی اقدامات کیئے اور مختلف علاقوں میں افغان مہاجرین کیمپوں کے ناموں سے خیمے لگائے گئے۔پشاور کی افغان کالونی بھی ان کیمپوں میں سے ہے جہاں افغان مہاجرین بڑی تعداد میں زندگی گزار رے تھے۔پشاور کی افغان کالونی اب  بھی اسی نام سے یادکی  جاتی ہے اور بعض افغان مہاجرین اس میں بس رہے ہیں۔ یہ افغان مہاجرین افغانستان میں اپنا کاروبار کرتے تھے اور یہاں پر بھی کاروبار شروع کرنے کیلئے سرگرم ہوگئے۔زیادہ ترافغان مہاجرین نے پشاور میں کاروبار شروع کیا کیونکہ پہلے سے پاکستان او افغانستان کےدرمیان مختلف اشیاء کاروبار ہوتا تھا۔ تو انہوں نے یہاں کاروبار شروع کرنا اتنا مشکل تصور نہیں کیا، اب بھی پشاور میں افغان لیدر کا کاروبار، قالین کی صنعت ،کپڑوں کا کاروبار اور خوراک جن میں  افغان ہوٹل شامل ہیں کافی مشہور ہیں۔اب بھی پشاور میں افغانی کابلی پلاو افغانی منتو، افغانی برگر اور ایسی بہت سی چیزیں کافی مقبول ہیں۔  تاہم قالین انڈسٹری وہ انڈسٹری ہے جو نہ صرف پاکستان میں دوسرے ممالک میں بھی مشہور ہے۔

پشاور کے خیبر بازار صدر بازار ، بورڈ بازار میں زیادہ تر قالین  کا کاروبار ہوتا ہے، لیکن اس میں خیبربازار کی مدنی مارکیٹ وہ مارکیٹ ہے جہاں پر نا مکمل قالین افغانستان سے آتے ہے اور یہاں پر اس میں باقی کام مکمل کیا جاتا ہے،قالین جب افغانستان میں مکمل ہوجاتا ہے تو پھر وہ یہاں بھیجتےہے، قالین میں گٹنگ، کنارے لگانا، دھلائی کرنا اور رنگ  کا کام بھی یہاں پر مکمل کیا جاتا ہے، قالین سازی کےحوالےسےمشہورہےکہ افغان مہاجرین گھروں میں اپنے بچوں کوبھی یہ ہنر سکھاتےہےجب بچےسکول سےگھرواپس آتےہیں توقالین بنانےمیں والدین کاہاتھ بٹاتے ہیں اور یوں وہ وقت گزرنےکےساتھ ساتھ قالین سازی کےماہربن جاتے ہیں۔ایک رپورٹ کےمطابق شروع میں قالین سازی کاکاروبارافغانیوں کےکنٹرول میں تھالیکن بعدمیں قانونی،بنک اوربیرونی ممالک مال بھیجنےکےباعث مجبورا پاکستانی تاجروں کوحصہ داربناناپڑا۔قالین سازی کی صنعت میں پاکستان نےاتنی ترقی کی کہ وہ دنیاکےان ملکوں میں شامل ہو گیا جوکہ بہترین قالین میں اپنا ایک مقام رکھتاہے،لیکن بدقسمتی سےآج یہ کاروبارمشکل صورتحال سےدوچار ہے۔

خیبربازارکےمدنی مارکیٹ میں قالین سازی کےکاروبار سے وابسطہ افغان شہری  محمدہارون جوکہ خود2003 سےقالين سازی کرتاآرہاہےکاکہناہےکہ یہ کاروبارہمارےآباواجدادنےشروع کیاتھاجوآج یہاں تک پہنچ چکاہے۔محمدہارون کاکہناہےکہ قالین سازی کیلئےجوسامان درکارہوتاہےوہ بیرون ملک سےدرآمدکرتےہیں جن میں آسٹریلیا،نیوزلینڈ،عراق،سعودی عرب شامل ہیں، قالین سازی میں پاکستانی وول بھی استعمال ہوتی ہے۔محمد ہارون کہتےہیں کہ زیادہ تریہ قالین باہرممالک برآمدکیےجاتےہیں اس کی قیمت بہت زیادہ ہوتی ہےقالین بنانےپربہت خرچہ آتاہے وقت بھی زیادہ درکار ہوتاہے۔یہ قالین باہرکےلوگ زیادہ خریدتےہیں ۔افغانستان کی  صورتحال کےبعداس کاروبارپربھی منفی اثرات مرتب ہوئےہیں۔ایک  سوال کےجواب میں محمدہارون کاکہناتھاکہ افغانستان میں خراب صورتحال کی وجہ سےطورخم بارڈربند ہے اوراسی وجہ سےہمارےکاروبارپرمنفی اثرپڑاہےسامان لانےاورلےجانےکیلئےحکومتی فیصلوں کاانتظارکرتےہیں۔ْ

محمد ہارون کہتےہیں کہ قالین سازی کےہنرمیں تقریبا80 فیصد خواتین شامل ہیں افغانستان خواتین یہ کام گھروں میں رہ کرکرتی ہیں۔ چونکہ افغانستان میں طالبان حکومت نے  گھروں میں عوروتوں کو کام کرنے کی اجازت دی ہے۔ محمدافسرجوپچھلے40سال سےقالین سازی کےشعبےسےوابستہ ہیں انکاکہناہے کہ یہ قالین افغانستان سے یہاں آتے ہیں جو نا مکمل ہوتےہیں پھرپشاورمیں اسےمکمل کیاجاتاہےجسمیں واشنگ،گٹنگ اوردوسرسے لوازمات شامل کرکے اور مکمل کرکے بیچتےہیں۔محمدافسرکاکہناہے کہ قالین کی تیاری میں تقریبا6ماہ کاوقت لگتاہےتیارہونےکےبعدقالین کو افغانستان سےپاکستان سپلائی کیاجاتاہےجوکام رہتاہے15دنوں میں مکمل کیاجاتاہے۔محمد افسرکہتےہیں موجودہ صورتحال میں افغانستان سے پاکستان چیزوں کی سپائی بندہے جسکی وجہ سے کاروبار مکمل طورٹھپ ہے۔ایک سوال کے جواب میں محمدافسرکاکہناتھاکہ یہ قالین ہم ترکی،امریکااوردیگریورپی ملکوں کوبیجتے ہیں۔وہاں کے لوگ اس قالین  کوبہت پسندکرتت ہیں۔افغان قالین اورمقامی مارکیٹ میں بننےوالے قالین میں بہت فرق ہوتاہےجوبھی توڑابہت اس حوالے سے جانتےہیں  ان کو باآسانی پتہ چلتا ہے کہ کونسا قالین مقامی ہے او کونسا افغان۔محمدافسرنےمزیدکہاکہ قالین سازی کی صنعت سےنا صرف افغانستان بلکہ پاکستان کےلوگوں کی بھی  روزی روٹی جڑی ہوئی ہے۔محمدافسر نےپاک افغان حکومت  سےمطالبہ کیا  ہے کہ افغانستان اورپاکستان کی سرحدپرسپلائی بحال کی جائے تاکہ سالوں  سےکامیاب چلنےوالاکاروباردوبارہ چمک اٹھے۔

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket