افغان نرگسیت، پشتون قوم پرست اور زمینی حقائق

بعض پشتون قوم پرست تاحال افغانستان میں ڈاکٹر اشرف غنی کی حکومت کے غیر متوقع خاتمے کے صدمے سے نہیں نکل پا رہے اور اس وقت وہ پاکستان کو نئے منظر نامے یا نئی حکومت کے قیام کا ذمہ دار قرار دے رہے ہیں حالانکہ اشرف غنی کے بھائی سمیت بہت سے سابق وزراء نہ صرف ان کی حکومت کے خاتمے کو اُن کی نااہلی قرار دے رہے ہیں بلکہ درجنوں یا تو نئی حکومت کی کھل کر حمایت کرنے لگے ہیں یا اس کے ساتھ رابطوں میں ہیں۔
Pashtun qaumi jirga bannuبنوں میں ایک اجتماع سے اپنے خطاب میں افراسیاب خٹک نے کہا کہ پاکستان نے معید یوسف )مشیر برائے قومی سلامتی(کو افغانستان اور اس کی حکومت کے لیے وائسراے مقرر کر دیا ہے اور یہ کہ پاکستان نے پہلے مجاہدین اور پھر طالبان کے ذریعے افغانستان پر قبضہ کرنے کی کوشش کی۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ جناب خٹک کو یہ معلوم ہی ہوگا کہ ہر ملک نے افغانستان کے لیے اپنے خصوصی نمائندے مقرر کیے ہیں اور پاکستان کے نمائندہ خصوصی معید یوسف نہیں بلکہ محمد صادق خان ہیں۔ معید یوسف صرف ایک بار افغانستان گئے ہیں اور ان کے دورے کا مقصد بعض دو طرفہ معاملات پر اپنے مینڈیٹ کے مطابق افغان حکام سے تبادلہ خیال کرنا تھا۔
جناب خٹک سے یہ پوچھا جا سکتا ہے کہ آپ کئی برسوں تک ببرک کامل اور ڈاکٹر نجیب اللہ کے ادوار حکومت میں جب سرکاری وسائل پر اکبر خان کے فرضی نام سے کابل میں ساتھیوں سمیت قیام پذیر تھے تو آپ کس ملک کے وائسرائے یا نمائندہ تھے؟ ان سمیت بعض دیگر سے یہ بھی پوچھا جا سکتا ہے کہ اشرف غنی کا بھائی اب پاکستان کیوں منتقل ہوگئے ہیں اور اس سے قبل ان کے والد پشاور کے یونیورسٹی روڈ پر جب ٹرانسپورٹ اور ٹائرز کا کاروبار کر رہے تھے اور کروڑوں کما رہے تھے تو وہ بھی پاکستان کے ایجنٹ تھے؟
اور تو اور موصوف دیگر اس سوال کا بھی جواب دیں کہ جب ڈاکٹر نجیب اللہ اور ان کے بھائی کو مارا گیا تو ان کی والدہ اور بہن پشاور میں تھی یا افغانستان کے کسی شہر میں ؟
وہ اس الزام کا بھی جواب دیں کہ ڈاکٹر نجیب اللہ کی وہ ڈائری کس کے پاس ہے جس میں انہوں نے دوران پناہ پاکستان کے قوم پرستوں کے بارے میں اپنے تاثرات اور یادداشت لکھی تھیں۔
وہ خان عبدالولی خان کی ایک کتاب میں اپنے بارے میں کہے گئے اس الزام پر بھی کبھی بات کریں جس میں انہوں نے کہا ہے کہ موصوف بیک وقت تین چار ممالک کے لیے مبینہ جاسوسی کا کام کیا کرتا تھا۔
جس جرگے میں موصوف سمیت متعدد دوسروں نے افغانستان کی حالیہ تبدیلی کا سوگ منایا اس میں اے این پی، قومی وطن پارٹی اور بعض دوسری پختونخواہ بیسڈ پاپولر پارٹیوں کی اعلےٰ قیادت شریک نہیں ہوئی۔ سوال یہ ہے کہ قوم پرست دوسروں پر الزامات لگانے سے قبل خود متحد کیوں نہیں ہوتے اور ڈیڑھ انچ کی مساجد انہوں نے کیوں بنائی ہے؟
ایک سوال تو یہ بھی اٹھتا ہے کہ اس جرگے میں اشرف غنی یا حامد کرزئی وغیرہ کا کوئی نمائندہ یا وفد کیوں شریک نہیں ہوا؟
جہاں تک محمود خان اچکزی کا تعلق ہے ان کی پارٹی پاکستان کی حکومتوں کا ماضی میں نہ صرف حصہ رہی ہیں بلکہ نواز دور حکومت میں موصوف نے کسی سینئر پارٹی لیڈر کی بجائے اپنے بھائی کو بلوچستان کا گورنر بنایا جس پر پارٹی میں اختلافات بھی پیدا ہوئے۔
Aimal Wali Khan ANPدوسری طرف اے این پی کے صوبائی صدر ایمل ولی نے ایک ٹی وی انٹرویو میں جہاں اس قسم کے جرگوں پر تحفظات کا اظہار کیا وہاں موصوف نے افغان طالبان اور ان کی قیادت کو افغانیت اور پشتونولی ہی سے باہر کر دیا اور کہا کہ وہ ان لوگوں کو نہ تو انسان سمجھتے ہیں نہ افغان اور نا پشتون۔ سوال یہ کیا جا سکتا ہے کہ ان کو یہ مینڈیٹ اور اختیار کس نے دیا ہے کہ وہ دوسروں کی نسل قومیت یا شہریت کا فیصلہ کریں؟
موصوف نے نیا انکشاف یہ بھی کیا ہے کہ اسامہ بن لادن زندہ ہے اور ایبٹ آباد آپریشن ایک ڈرامہ تھا۔ انہوں نے عجب بات یہ بھی کی ہے کہ جس شخص کو مارا گیا تھا وہ ایک کردار یا اداکار تھا۔
عجیب بات یہ ہے کہ اسی ایمل ولی نے چارسدہ میں مزدور کسان پارٹی کے ایک جرگہ میں شرط لگا کر کہا تھا کہ اشرف غنی جان دے دے گا مگر افغانستان نہیں چھوڑے گا۔
موصوف نے چند روز قبل مولانا فضل الرحمن کے بارے میں ایک ایسے وقت میں انتہائی سخت اور نامناسب بیان داغ ڈالا تھا جبکہ اپوزیشن عدم اعتماد کی کوششوں میں لگی ہوئی ہے۔
یاد رہے کہ اے این پی 2018کے الیکشن کے بعد بلوچستان میں اس حکومت کی کابینہ میں شامل ہے جس کو موصوف اسٹیبلشمنٹ کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں۔ ان کو اتنی ہمت نہیں ہورہی کہ موجودہ صورتحال میں اپنی ڈیڑھ عدد وزارت ہی کی قربانی دے دیں۔
تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستان کے قوم پرست پاکستان پر افغانستان میں مداخلت کے ایک نفسیاتی مسئلے اور عادت سے دو چار ہیں حالانکہ سابق افغان حکمران اور سیاستدان متعدد بار آن دی ریکارڈ کہہ چکے ہیں کہ یہ ان سے مالی فوائد حاصل کیا کرتے تھے۔
اسی ایونٹ میں رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ نے بھی وہی لائن اپنائی جو کہ افراسیاب خٹک نے اپنائی تھی حالانکہ موصوف قومی اسمبلی کے ممبر ہیں اور پارلیمانی سیاست کے اختلافی مسئلے پر پی ٹی ایم میں تنظیم سے الگ ہو کر الگ پارٹی بنا چکے ہیں۔

انہی باتوں کے باعث قوم پرست ماضی میں نہ صرف اپنے کارکنوں کو ریاست کے خلاف اُکساتے رہے ہیں بلکہ بعض شدت پسند قوتوں کو اپنے اوپر حملے کرنے کا جواز بھی فراہم کرتے رہے ہیں۔ اس لئے بہتر یہ ہے کہ یہ ماضی سے نکل کر آج کے زمینی حقائق کا ادراک کریں اور اپنی محدود صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر خطے کے امن کے لیے کام کریں۔

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket