عقیل یوسفزئی
وانا کیڈٹ کالج پر گزشتہ روز جس انداز میں خودکش حملہ کیا گیا اور جس طریقے سے اسی دوران اسلام آباد کی ایک عدالتی احاطے کو نشانہ بنایا گیا اس نے نہ صرف ریاستی اداروں بلکہ عوامی حلقوں کو بھی شدید نوعیت کی تشویش میں مبتلا کردیا ہے ۔ اگر چہ کالعدم ٹی ٹی پی بشمول جماعت الاحرار نے ان واقعات یا حملوں سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے تاہم پاکستان کے سیکورٹی ذرائع بڑے وثوق سے یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ وانا کیڈٹ کالج پر حملہ کرنے والے نہ صرف یہ کہ کالعدم ٹی ٹی پی ہی کے لوگ تھے بلکہ ان کا افغانستان میں موجود اپنے ماسٹر ماینڈز اور سہولت کاروں سے رابطہ بھی تھا ۔ دوسری طرف اسلام آباد حملے کو بھی کالعدم ٹی ٹی پی کا اقدام قرار دیا جارہا ہے اور ساتھ میں اس حملے کو افغان عبوری حکومت کے ان بیانات کے تناظر میں دیکھا جارہا ہے جن میں متعدد وزراء نے آن دی ریکارڈ پاکستان کو دھمکیاں دی تھیں کہ اسلام آباد اور پنجاب کو نشانہ بنایا جائے گا ۔
اس تاثر یا خدشے پر سب متفق ہیں کہ اگر سیکیورٹی فورسز نے کوئیک رسپانس نہیں دی ہوتی اور محتاط انداز میں آپریشن نہیں کیا گیا ہوتا تو وانا کیڈٹ کالج میں اے پی ایس کے طرز پر کوئی سانحہ ہوجاتا اور شاید اسی کا ردعمل ہے کہ اقوام متحدہ ، یورپی یونین ، امریکہ ، برطانیہ ، روس ، چین ، قطر ، سعودی عرب اور دیگر ممالک ، فورمز نے وانا اور اسلام آباد کے حملوں کی نہ صرف کھل کر مذمت کی ہے بلکہ سویلین کو نشانہ بنانے کی ان کارروائیوں پر تشویش کا اظہار بھی کیا ہے ۔
وانا حملے کی افغانستان کی عبوری حکومت نے بھی مذمت کی ہے تاہم اس تلخ حقیقت کا افغان عبوری حکومت کو اب ادراک ہونا چاہیے کہ اس کی سرزمین جس انداز میں پاکستان کے خلاف استعمال ہورہی ہے اس نے بہت خطرناک قسم کی صورت حال کو جنم دے رکھا ہے اور اس نوعیت کے حملے اور واقعات کشیدگی اور بد اعتمادی ایک نہ ختم ہونے والی جنگ میں تبدیل ہوسکتی ہیں جس کے ممکنہ نتائج بہت خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں ۔
انہی واقعات کے دوران بھارت کے دارلحکومت دہلی میں ایک واقعہ ہوا جس کے نتیجے میں تقریباً ایک درجن افراد ہلاک ہوئے ۔ بھارتی میڈیا نے منٹوں کے اندر اس واقعے کو دہشتگردی کا واقعہ قرار دیتے ہوئے پاکستان کو اس کا ذمہ دار قرار دیا جس کے ردعمل میں عالمی میڈیا نے رپورٹس شایع کرتے ہوئے اس خدشے کا اظہار کیا کہ شاید دونوں ممالک ایک بار پھر جنگی صورتحال سے دوچار ہو جائیں ۔ یہاں تک کہا گیا کہ پاکستان ہائی الرٹ اسٹیٹس میں چلا گیا ہے اور کسی وقت کچھ بھی ہوسکتا ہے ۔ ان واقعات کے تسلسل اور ٹائمنگ کو محض اتفاق نہیں کہا جاسکتا بلکہ ان کو ایک مربوط پلاننگ کے تناظر میں دیکھا جارہا ہے ۔
آج پشاور میں صوبائی حکومت کی دعوت پر ایک جرگے کا انعقاد کیا جارہا ہے جس میں توقع کی جارہی ہے کہ تقریباً تمام اہم پولیٹیکل اسٹیک ہولڈرز شرکت کریں گے ۔ یہ ایک اچھا اقدام ثابت ہوسکتا ہے تاہم اس جرگے کا فایدہ اسی صورت میں سامنے آئے گا جب صوبائی حکومت اس کی تجاویز پر عمل درآمد کرنے کے لیے وفاقی حکومت اور ملٹری اسٹبلشمنٹ کے ساتھ بیٹھنے کا راستہ اور فارمولا اختیار کرے ۔ محض پولیٹیکل پوائنٹ اسکورنگ سے اس سنگین صورتحال سے نمٹنے اور نکلنے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا ۔
( 12 نومبر 2025 )


