وزیرستان میں فورسز کی ایک اور کارروائی

شمالی وزیرستان کے علاقے دتہ خیل میں سکیورٹی فورسز نے ایک کارروائی کرتے ہوئے 2 دہشتگردوں کو ہلاک کردیا جبکہ اس آپریشن کے دوران مانسہرہ سے تعلق رکھنے والے نائیک عادل شہزاد شہید ہوگئے گزشتہ روز بھی ایسی ہی ایک کارروائی کے دوران شمالی وزیرستان ہیں میں تقریباً نصف درجن شرپسندوں کو ٹھکانے لگایا گیا تھا جبکہ اسی مہینے مزید دیگر کارروائیوں کے نتیجے میں وزیرستان اور مہمند کے اضلاع میں متعدد دیگر دہشتگردوں کو بھی نشانہ بنایا جا چکا ہے ۔

ماہرین کا خیال ہے کہ بعض دہشتگرد افغانستان سے پاکستان کےان سرحدی علاقوں میں آکر پناہ لیتے ہیں اور جن افراد کو حالیا دنوں یا ہفتوں میں پاکستان کی سکیورٹی فورسز نے نشانہ بنایا ، یہ غالباً افغانستان سے آئے تحریک طالبان پاکستان کے وہ جنگجو ہیں جو کہ آپریشن ضرب عضب کے بعد فرار ہو کر افغانستان کے مختلف علاقوں میں پناہ لے چکے تھے۔ پاکستان میں امن وامان کی مجموعی صورتحال ماضی کے مقابلے میں بہت بہتر ہوچکی ہے تاہم افغانستان کے بدلتے صورتحال کے اثرات اِن پاکستانی علاقوں پر اثر انداز ہو رہے ہیں اور خدشہ ہے کہ آئندہ چند ہفتوں یا مہینوں میں اس سلسلے میں مزید تیزی واقع ہوگی، کیونکہ بعض بیرونی قوتیں اس کوشش میں ہے کہ بدلتے حالات کے تناظر میں پاکستان اور افغانستان کے حکومتوں اور عوام کے درمیان غلط فہمیاں اور دوریاں پیدا کی جائیں ۔ بدقسمتی سے بعض اہم افغان عہدیداران بھی ان کوششوں کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔ یہ وہ عناصر ہے جو کہ ماضی قریب میں پاکستانی طالبان کو افغانستان کے مختلف علاقوں میں سہولتیں فراہم کرکے ان کو بوقت ضرورت پاکستان کے خلاف استعمال کرتے آرہے ہیں ۔

ٹی ٹی پی کہ ایک سابق ترجمان نے گزشتہ ہفتے اپنے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ پاکستان کے جن جنگجوؤں کے خلاف فورسز نے گھیرا تنگ کیا وہ افغانستان چلے گئے جہاں انہوں نے اپنی طاقت کو محفوظ رکھا اور پاکستان پر متعدد کامیاب حملے بھی کر ائے۔ موصوف نے دعویٰ کیا کہ ٹی ٹی پی افغانستان میں کافی محفوظ اور منظم ہے اور وہ وقت آنے پر بھرپور حملوں کی طاقت اور صلاحیت رکھتی ہے۔ اگر ان کے اس انٹرویو کا ناقدانہ جائزہ لیا جائے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ افغانستان کے اداروں کے علاوہ امریکی اور نیٹو فورسز نےبھی ٹی ٹی پی کو ایک منصوبے کے تحت محفوظ ٹھکانے فراہم کئے ورنہ ان کے خلاف مؤثر کاروائیاں کی جاتیں۔ اگرچہ ٹی ٹی پی کے تین سربراہان کو افغانستان میں ڈرون حملوں کے ذریعے نشانہ بنایا جا چکا ہے تاہم تلخ حقیقت یہ ہے کہ افغان حکومت اور اس کے اتحادیوں نے ایک منصوبے کے تحت ان کو رعایت دی اور غالباً اسی کا نتیجہ تھا کہ ایک پشتون قوم پرست پارٹی کے صوبائی سربراہ نے چند ماہ قبل ایک بڑے سیاسی اجتماع میں کھلے عام افغان حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ پاکستان سے فرار ہونے والے دہشتگردوں کے خلاف مؤثر کارروائیاں کرے۔ ان کے بقول مذکورہ افراد نہ صرف افغانستان میں بیٹھ کر ان کے لیڈروں اور کارکنوں کو دھمکیاں دیتے ہیں بلکہ متعدد حملے کروانے میں بھی ملوث ہیں۔

حال ہی میں جب داعش خراسان کے سربراہ اسلم فاروقی کی گرفتاری یا حوالگی کا مسئلہ سامنے آیا تو پاکستان نے موقف اپنایا کہ موصوف چونکہ پاکستان پر حملوں میں ملوث رہا ہے اس لیے اُسے پاکستان کے حوالے کیا جائے۔ تاہم افغان حکومت نے یہ کہہ کر اسلم فاروقی کی حوالگی سے انکار کیا کہ دونوں ممالک کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ نہیں ہے اور یہ کہ افغان حکومت اسلم فاروقی کا اپنے قانون کے مطابق ٹرائل کرےگی۔ تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ کراس بارڈر دہشتگردی اب بھی دونوں ممالک کا مشترکہ مسئلہ ہیں اور اسی کی روک تھام کے لیے پاکستان نے پاک افغان سرحد پر نہ صرف باڑ لگائی بلکہ سینکڑوں چوکیاں بھی قائم کیں۔ سرحد اتنی لمبی اور پیچیدہ ہے کہ بعض مواقع پر اس کی نگرانی ممکن نہیں رہتی اور حملہ آور اسی کا فائدہ اٹھا کر نہ صرف یہ کہ نقل و حرکت کرتے ہیں بلکہ حملے بھی کرتے ہیں۔ چونکہ دونوں جانب سہولت کار موجود ہوتے ہیں اس لئے ان کو ٹھہرانے کے ٹھکانے مل جاتے ہیں۔

رواں ہفتے بلوچستان کے بارڈر پر بھی بعض مسائل سامنے آئے جہاں بعض افغان اداروں نے پاکستانی فورسز کے حفاظتی اقدامات کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے کی کوشش کی اور ایک بلوچ علیحدگی پسند گروپ کو مبینہ طور پر سہولتیں فراہم کیں۔ اگر اس سلسلے کو پراکسی وار کا نیا آغاز یا حربہ قرار دیا جائے تو غلط نہیں ہوگا تاہم اس کا منفی پہلو یہ ہے کہ اس سے نہ صرف یہ کہ دہشتگردی کے خلاف مشترکہ کوششیں متاثر ہونگی بلکہ دو طرفہ تعلقات بھی خراب ہوں گے۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہیں کہ اعتماد سازی کو فروغ دیا جائے۔

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket