Voice of Khyber Pakhtunkhwa
Monday, March 17, 2025

آرمی چیف نئی نسل سے مخاطب

آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے بہاولپور میں اسٹوڈنٹس کے ساتھ ایک تفصیلی نشست میں گفتگو کرتے ہوئے ان کو مشورہ دیا ہے کہ وہ بلا وجہ تنقید اور منفی پروپیگنڈا کی بجائے اپنی تعلیم اور مستقبل کے فرائض پر توجہ مرکوز کریں تاکہ پاکستان کے مستقبل کو منفی رویوں اور مایوسی سے بچایا جاسکے۔ اپنی گفتگو میں انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ پاکستان خدا کی جانب سے ہمیں عطاء کردہ انمول تحفہ ہے جس کی قدر اور حفاظت ہم سب پر لازم ہے کیونکہ ملکی استحکام اور ترقی کے لیے ہر کسی نے اپنے اپنے حصے کی شمع روشن کرنی ہے۔

اسی روز انہوں نے فورسز کے جوانوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جدید جنگوں کے چیلنجر مزید بڑھ گئے ہیں اس لیے لازمی ہے کہ جوان ان چیلنجر سے نمٹنے کیلئے اپنی تیاریوں کو جاری رکھیں اور دنیا پر یہ ثابت کیا جائے کہ پاکستان نہ صرف یہ کہ محفوظ ہاتھوں میں ہے بلکہ ہم بے پناہ صلاحیتوں سے بھی مالامال ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کو جہاں ایک طرف بدترین نوعیت کی دہشتگردی کا سامنا ہے وہاں ریاست اور معاشرت دونوں کو ڈیجیٹل دہشتگردی کی صورت میں انتشاری ٹولوں کے خطرات سے بھی دوچار ہونا پڑا ہے۔ اس صورتحال سے ایک تو ہماری نئی نسل بہت متاثر ہو رہی ہے اور دوسرا نقصان ہماری معیشت کو اٹھانا پڑ رہا ہے اس لیے آرمی چیف نے ایک بار پھر واضح طور ان مسائل کے ساتھ ساتھ نوجوانوں اور اسٹوڈنٹس کو ان کی اصل ذمہ داریاں بھی یاد دلادی ہیں۔

اس سے قبل بھی انہوں نے دو تین بار اسٹوڈنٹس اور مختلف مکاتب فکر کے ساتھ اس نوعیت کے خیالات شئیر کیے ہیں جو کہ اچھی روایت اور وقت کی ضرورت ہے ۔ ڈی جی آئی ایس پی آر اور پشاور ، کویٹہ کے کور کمانڈرز بھی وقتاً فوقتاً اسٹوڈنٹس اور مختلف مکاتب فکر کے نمائندوں کے ساتھ اس قسم کی نشستیں دکھنے کا اہتمام کرتے آرہے ہیں۔ یہ سب کچھ اس لئے لازمی ہے کہ ایک باقاعدہ مہم کے ذریعے نہ صرف یہ کہ ریاست کے خلاف پروپیگنڈا جاری ہے بلکہ کوشش کی جارہی ہے کہ نئی نسل میں مایوسی پھیلا کر ان کی صلاحیتوں کو منفی رویوں میں منتقل کیا جائے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں سب کچھ ٹھیک نہیں چل رہا اور بہت سے حلقوں اور طبقات کی شکایات اور مطالبات پر خصوصی توجہ کی اشد ضرورت ہے تاہم اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ عوام اور ریاست کو ایک دوسرے کے خلاف لاکھڑا کردیا جائے اور نئی نسل کو بغاوت یا مزاحمت پر آمادہ کیا جائے۔ پاکستان خصوصاً خیبرپختونخوا میں سیکورٹی کی صورتحال اور چیلنجز کی نوعیت کیا ہے اس کا اندازہ گزشتہ روز سامنے آنے والی ایک رپورٹ سے لگایا جاسکتا ہے۔ مذکورہ رپورٹ کے مطابق صرف ماہ فروری میں خیبرپختونخوا پر 140 دہشت گرد حملے کیے گئے ہیں جس کے نتیجے میں سیکورٹی فورسز کے 180 اہلکار شہید اور زخمی ہوگئے ہیں۔

یادہ تر حملے پاکستان کی فوج پر کیے گئے ہیں جن کی تعداد 90 کی لگ بھگ ہے ۔ اس تناظر میں اگر سیکورٹی فورسز کی کارروائیوں کی تعداد اور رفتار کو بھی دیکھا جائے تو آسانی کے ساتھ اس نتیجے پر پہنچا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں مختلف محاذوں پر ایک بڑی پیچیدہ جنگ لڑی جارہی ہے اور حالات کا تقاضا یہ ہے کہ سیاسی پوائنٹ اسکورنگ اور مایوسیاں پھیلانے کی بجائے تحمل ، برداشت اور یکجھتی کا راستہ اختیار کیا جائے۔
عقیل یوسفزئی

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket