عقیل یوسفزئی
پاکستان تحریک انصاف کے سینئر رہنما سینیٹر اعظم سواتی نے کہا ہے کہ وہ قرآن مجید پر حلف اٹھانے اور قسم کھانے کو تیار ہیں کہ ان کے لیڈر عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی نے ان کو اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ڈیل یا مفاہمت کا ٹاسک دیا تھا اور دونوں کی خواہش تھی کہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ان کے معاملات درست ہو۔ ان کے بقول مفاہمت کی ایسی کوششیں ان کے علاوہ متعدد دیگر نے بھی کی ہیں اور یہ سب کچھ عمران خان کی خواہش اور ہدایت کے مطابق ہوتا رہا ہے۔
اعظم سواتی کے اس موقف یا بیان کے بعد بیرون ملک بھیٹے یوٹیوبرز اور ریاست مخالف ” کی بورڈ واریئرز” نے حسب معمول اتنے سینئر رہنما کو ریاستی اداروں کا ” ایجنٹ” قرار دیتے ہوئے ان کی ٹرولنگ شروع کردی حالانکہ تمام باخبر حلقوں کو یہ بات پہلے سے معلوم ہے کہ عمران خان پہلے دن سے ڈیلنگ یا باالفاظ دیگر مفاہمت کی نہ صرف ہر سطح پر کوشش کرتے رہے ہیں بلکہ اس تمام صورتحال کے تناظر میں سب سے بنیادی کردار خیبرپختونخوا کے ان کی اپنی پارٹی کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور ہی کرتے آرہے ہیں اور جب بھی ان کوششوں کے متوقع نتائج برآمد نہیں ہوئے خان صاحب ان پر مختلف اوقات میں غصہ اتارتے رہے ہیں۔
سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ اگر پاکستان کی ایک بڑی پارٹی کے سربراہ اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان بوجوہ کشیدگی موجود ہے تو اس کو کم کرنے کے لیے کی جانے والی کوششوں پر پشیمان ہونے کی ضرورت کیوں محسوس کی جارہی ہے ؟ مختلف ادوار میں ایسے مراحل آتے رہے ہیں اور مفاہمت کی کوششوں سے فریقین میں تلخیاں ختم ہونے کی متعدد مثالیں موجود ہیں ۔ اگر پی ٹی آئی ایسا کچھ کرتی آرہی ہے تو اس میں برائی کیا ہے؟
المیہ یہ ہے کہ پی ٹی آئی نے ابتداء ہی سے ریاست اور مخالفین کے خلاف مزاحمت یا مخالفت کی بجائے بغاوت کا راستہ اختیار کرتے ہوئے اپنے کارکنوں کو سولی پر چڑھانے کی پالیسی اپناکر اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی ماردی ہے اور عمران خان صاحب بھی اسی رویہ کی قیمت چکارہے ہیں۔
اب بھی وقت کی ذاتیات کی بجائے ” سیاسیات” کا راستہ اختیار کرتے ہوئے مثبت طرز عمل اختیار کیا جائے اور مسائل کے حل کے امکانات ڈھونڈے جائیں۔
( 7 اپریل 2024 )