امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر افغانستان میں موجود باگرام ائیر بیس پر ” قبضہ” کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس ائیر بیس پر کنٹرول حاصل کرنا چین پر نظر رکھنے کے لیے بہت ضروری ہے ۔ دوسری جانب ایک معتبر امریکی اخبار نے دعویٰ کیا ہے کہ افغانستان کی عبوری حکومت کے ساتھ اس معاملے پر امریکہ کے خصوصی نمائندےایڈم بوہلر اور ان کی ٹیم کے مذاکرات جاری ہیں ۔ اخبار کے مطابق امریکہ افغانستان میں محدود عسکری موجودگی کو ممکن بنانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے ۔ افغان عبوری حکومت نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی اس خواہش یا اعلان کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان کی سرزمین پر امریکی افواج کی موجودگی کو برداشت نہیں کیا جائے گا ۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ افغانستان سے امریکی انخلاء کو شکست قرار دیتے آئے ہیں اور وہ دوحہ معاہدے کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں ۔ یہ تیسری بار ہے کہ انہوں نے باگرام ائیر بیس کو امریکی تحویل میں لینے کی بات کی ہے ۔ کابل سے کچھ فاصلے پر واقع باگرام ائیر بیس ناین الیون کے بعد قائم کی گئی تھی ۔ یہاں نہ صرف یہ کہ نیٹو اور امریکہ کے فوجی کمانڈر بیٹھا کرتے تھے اور آپریشنل کارروائیاں ڈیل ہورہی تھیں بلکہ ایک جدید نظام کے تحت پورے خطے کی نگرانی بھی کی جارہی تھی ۔ جن ممالک پر اس جدید نظام کے ذریعے نظر رکھی جارہی تھی ان میں چین ، روس ، ایران ، پاکستان اور متعدد وسطی ایشیائی ممالک شامل ہیں ۔ لگ یہ رہا ہے کہ امریکہ اسی نظام کو پھر سے فعال بنانے کی پلاننگ کر رہا ہے اور وہ افغانستان کے اندر ایک بار پھر محدود عسکری موجودگی کی خواہاں ہے ۔ یہ اعلان ایک ایسے وقت میں پھر سے سامنے آیا ہے جب افغانستان میں القاعدہ کے سربراہ سیف العدل کی موجودگی اور سرگرمیوں کی اطلاعات زیر گردش ہیں ۔ اور یہ اطلاعات بھی زیر گردش ہیں کہ پاکستان اور امریکہ کاؤنٹر
ٹیررازم کے کسی مشترکہ لائحہ عمل پر غور کر رہے ہیں ۔ اس لیے بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ باگرام ائیر بیس کے معاملے پر امریکہ ایک نئی مہم جوئی کے موڈ میں ہے ۔
پاکستانی افواج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری نے جرمن میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ نے افغانستان میں 7 ارب ڈالرز سے زائد کی مالیت کا اسلحہ چھوڑ رکھا ہے اور یہ اسلحہ کالعدم ٹی ٹی پی اور دیگر گروپوں کے ہاتھوں پاکستان کے خلاف استعمال ہوتا آرہا ہے ۔ یہی بات صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی کرتے آرہے ہیں جو کہ صدر جو بائیڈن کے انخلاء کے طریقہ کار پر پہلے دن سے تنقید کرتے رہے ہیں ۔ لگ یہ رہا ہے کہ امریکہ نہ صرف باگرام ائیر بیس پر کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کررہا ہے بلکہ افغانستان میں چھوڑے گئے اسلحہ کی حصول کا ارادہ بھی رکھتا ہے ۔ اس ضمن میں یہ بات اہمیت کی حامل ہے کہ دوحا معاہدے کے ” سرخیل” زلمے خلیل زاد نے حال ہی میں کابل کا دورہ کیا جہاں انہوں نے پاکستان کو مشورہ دیا کہ وہ افغانستان کے ساتھ معاملات کو سیاسی طور پر حل کرے ۔ دوسری جانب اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب عاصم افتخار نے کہا ہے کہ افغانستان میں 20 سے زائد دہشت گرد گروپوں کے تقریباً 60 ٹریننگ کیمپس قائم ہیں جن کے ذریعے پاکستان اور دیگر ممالک کے اندر دہشت گرد کارروائیاں کی جارہی ہیں ۔
اس تمام منظر نامے کو دیکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ خطے میں بہت ” توڑ پھوڑ” متوقع ہے اور ری الایمنت کا پراسیس ایک فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوگئی ہے ۔