باجوڑ دہشت گرد واقعہ اور فورسز کی کارروائی
عقیل یوسفزئی
باجوڑ میں سابق سینیٹر اور علاقے کی اہم شخصیت ہدایت اللہ خان کو چار دیگر ساتھیوں سمیت بم کا نشانہ بنانے کے افسوسناک واقعے نے سیاسی اور عوامی حلقوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور معاشرے کے ہر حلقے کی جانب سے اس حملے کی مذمت کی جارہی ہے ۔ وہ سابق گورنر انجینئر شوکت اللہ خان کے بھائی تھے اور اپنے بھتیجے کی الیکشن مہم میں حصہ لینے میں مصروف تھے کہ ان کی گاڑی کو اڑایا گیا ۔ اس سے قبل اسی علاقے کے ایک نوجوان امیدوار ریحان زیب خان کو بھی الیکشن کمپین کے دوران ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بناکر شہید کیا گیا تھا جبکہ جے یو آئی کے ایک ورکر کنونشن کو بھی خودکش حملے کا نشانہ بنایا گیا تھا جس میں درجنوں کارکنوں کی شہادتیں واقع ہوئی تھیں ۔
باجوڑ گزشتہ دو تین برسوں سے اس قسم کے حملوں کی زد میں ہے اور ان حملوں کے پیچھے داعش خراسان کا ہاتھ ہے جس کی جڑیں مقامی سطح پر اس بیلٹ میں کافی عرصے سے موجود ہیں ۔ اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے فورسز وقتاً فوقتاً کارروائیاں کرتی رہی ہیں تاہم علاقے کے مخصوص جغرافیائی پیچیدگیوں کے باعث حملہ آوروں کی بیخ کنی فورسز کے لیے ایک مشکل ٹاسک ثابت ہورہا ہے ۔ گزشتہ روز بھی ایک انٹلیجنس بیسڈ آپریشن کے دوران ایک مشہور کمانڈر عرفان اللّٰہ عرف عدنان کو موت کی گھاٹ اتارا گیا ہے ۔
سینیٹر اور ان کے ساتھیوں کی شہادت کے خلاف مختلف سیاسی اور عوامی حلقوں نے ایک پرامن احتجاج بھی کیا ۔ مقررین نے علاقے میں امن و امان کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حکومت سے موثر کاروائیوں کا مطالبہ کیا تاہم اس ضمن میں بھی ایک سوال بار بار سر اٹھاتا نظر آتا ہے کہ سیاسی جماعتیں اس سلسلے میں ریاست کے ساتھ کھڑی ہونے سے ہچکچانے کی پالیسی پر کیوں عمل پیرا ہیں ؟
دوسرا سوال یہ ہے کہ ماضی کے مسلسل حملوں اور ایسے واقعات کے تناظر میں جاری الیکشن کمپین کے دوران مقامی انتظامیہ نے ایسے افراد کی خصوصی سیکورٹی پر توجہ کیوں نہیں دی کیونکہ مقتول سمیت متعدد دیگر رہنماؤں کے ایسے بیانات ریکارڈ پر موجود ہیں کہ ان کو سیکورٹی تھریٹس کا سامنا ہے ۔ اگر چہ اس نوعیت کے حملوں کو ناکام بنانا کافی مشکل کام ہے اور گزشتہ چند ہفتوں کے دوران تقریباً 5 بار سیکورٹی فورسز کو مختلف شورش زدہ علاقوں میں ایسے ہی حملوں کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے اس کے باوجود ضرورت اس بات کی ہے کہ اہم قائدین کے ساتھ صوبائی اور ضلعی حکام کی کوآرڈی نیشن کو موثر بنایا جائے اور اس ضمن میں ایک مربوط حکمت عملی اختیار کی جائے ۔
اس بات کی ضرورت پھر سے محسوس کی جانے لگی ہے کہ اپیکس کمیٹی کی جانب سے عزم استحکام سے متعلق فیصلوں کو سیاسی مینڈیٹ دینے پر توجہ دی جائے اور قومی سطح پر فورسز کی پشت پناہی کرتے ہوئے درپیش چیلنجز سے نمٹا جائے ۔ محض الزامات در الزامات اور پولیٹیکل پوائنٹ اسکورنگ سے بات نہیں بنے گی بلکہ سب ریاستی اور سیاسی اسٹیک ہولڈرز کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا پڑے گا ۔