عقیل یوسفزئی
بہت کم لوگ ہماری ریاستی اور سیاسی ” کم ظرفی ” کے باعث چند برس قبل تک یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ ہمارے ” آس پاس” ہندوستان اور افغانستان کے علاؤہ چند اور ایسے ” مسلم” ممالک بھی ہیں جو کہ ہمہ جہت خصوصیات کی حامل ہیں ۔ جن کا کل عظیم تھا تو آج انتہائی پُرامن، خوشحال اور انیوالا کل بہت ” شاندار ہیں ۔ ہم نے آس پاس کے ممالک اور اقوام کو دیکھنے کی بجائے ہزاروں کلومیٹر دور دوستوں کو ڈھونڈنے کی غلامانہ پالیسی اختیار کی جس کے باعث ہم ” نہ ادھر کے رہے نہ ۔۔..” کے مصداق کہیں کے بھی نہیں رہے ۔
ذہنی غلاموں کی اولاد برسرِ اقتدار آئی تو انہوں نے ہمیں صرف مغرب کے خواب دکھائے حالانکہ مشرق اور جنوب میں کچھ ہی فاصلے پر نہ صرف تاریخ سے جڑی اقوام صدیوں سے چلی آرہی تھیں بلکہ ان کا آج ہم سے بھی زیادہ شاندار اور مستقبل ہم سے کہیں زیادہ محفوظ تھا ۔ اس یکطرفہ رومانس میں ہم نے سنٹرل ایشین اسٹیٹس کو اس طرح نظر انداز کیا جیسے ان کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں ۔
” شکر” ( طنز ) ہے کہ جہاں ایک طرف ہماری اپنی غلطیوں کے باعث جہاں مشرقی پاکستان ہم سے بوجوہ الگ ہوا وہاں مستقل مزاجی کے ساتھ افغانستان کے ساتھ تعلقات بنانے کی ہر کوشش کے باوجود آج وہ ہمارا بھارت ہی کی طرح سب سے بڑا دشمن بنا پھرتا ہے ۔
جو اسلامی ممالک سابق سوویت یونین کے زیر اہتمام اپنی ترجیحات اور ترقی کی راہ پر گامزن رہے انہوں نے ” روس” بننے کے بعد چند ہی چھوٹی موٹی جنگیں لڑ کر اپنے لیے باعزت مستقبل کے امکانات پیدا کئے جس کے نتیجے میں آج یہ ممالک علاقائی اور عالمی سیاست میں لیڈر بن کر سامنے آگئی ہیں ۔
ان ممالک میں آذر بائیجان بھی شامل ہیں ۔ اس ملک نے جہاں نئی عالمی صف بندی میں ایک باعزت مقام حاصل کیا وہاں اپنے عوام کو دنیا کی مذہب ترین ماڈلز میں بھی تبدیل کر کے رکھ دیا ہے ۔
اس ملک کی دارالحکومت نیویارک اور لندن کی طرح بہت مصروف ہے مگر اس نے ہر قوم، ملک ، نسل اور طبقے کو اپنی خاموش محبت سے نوازتے ہوئے خود کو سب کی توجہ کا مرکز بنادیا ہے ۔
یہ ایک ایسا ماڈل ملک ہے جو کہ پاکستان سے چند گھنٹوں کے فضائی سفر پر واقع ہے ۔ ہمیں اس ریاست سے سیکھنے کی اشد ضرورت ہے ۔
اور یہ کام اس لیے کوئی مشکل ” ٹاسک” نہیں ہے کہ آذر بائیجان کے حکمران ، عوام اور ہر طبقہ کے لوگ جن چند ممالک سے غیر مشروط ” محبت” کرتے ہیں ان میں پاکستان سرفہرست ہے ۔
وقت کا تقاضا ہے کہ ہم نئے رشتے اور راستے تلاش کرکے ہزاروں کلومیٹر دور مغرور دوستوں کی بجائے آذر بائیجان اور ایسے دوسرے ” ممنوعہ” دوستوں کو گلے لگا کر ایک نئے سفر کا آغاز کریں ۔
اس ضمن میں کونسے آسان راستے اپنائے جاسکتے ہیں اس لیے کوئی بڑی ڈپلومیسی کی کوئی ضرورت نہیں وہ ہم جیسے عام لوگ بھی بتاسکتے ہیں ۔
قابل ستائش بات یہ ہے کہ پاکستان نے اس ” پراسیس” کا آغاز کردیا ہے تاہم اس میں مزید تیزی لانے کی ضرورت ہے ۔
حرف آخر یہ کہ ایک صدی قبل ری ڈیزائن کرنے والے دنیا کے خوبصورت ترین شہر ” باکو” کو ” اسلام آباد” کے حکمرانوں کو ” ری وزٹ” کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔
( جاری ہے )


