کیا صوبائی حکومت کسی اور ملک سے مذاکرات کرسکتی ہے؟
خیبرپختونخوا کے مہم جو وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور نے ایک اور شوشہ چھوڑتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ وہ صوبے میں امن لانے کے لیے افغانستان سے براہ راست مذاکرات کریں گے اور یہ کہ وفاقی حکومت اور دیگر ادارے خیبرپختونخوا کی سیکیورٹی صورتحال پر قابو پانے میں دلچسپی نہیں لیتے ۔ اس سلسلے میں گزشتہ روز ان کی دعوت پر پشاور میں متعین افغان قونصل جنرل نے بھی ان سے ملاقات کی ۔ یہ بات سب کو معلوم ہے کہ کسی بھی ملک سے اس نوعیت کے مذاکرات صوبائی حکومت کا نہ تو ڈومین ہے اور نا ہی مینڈیٹ کہ یہ فیڈرل سبجیکٹ ہے وزیر اعلیٰ نے نہ صرف پولیٹیکل پوائنٹ اسکورنگ کا نیا حربہ استعمال کیا ہے بلکہ یہ کوشش بھی کی ہے کہ صوبے اور وفاق کے درمیان مزید فاصلے پیدا ہو۔
گورنر کنڈی اور وزیر دفاع سمیت متعدد اہم سیاسی قائدین اور تجزیہ کاروں نے اس نئے شوشے پر شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے۔
گورنر نے اس ضمن میں وزیر اعظم سے رابطہ کرنے اور ان کو اپنی تشویش سے آگاہ کرنے کے علاوہ ایک خصوصی انٹرویو میں کہا ہے کہ صوبائی حکومت کی ناقص کارکردگی کے باعث خیبرپختونخوا کے متعدد علاقے نو گو ایریاز بنے ہوئے ہیں اور یہ کہ اگر صوبے میں گورنر راج نافذ ہوتا ہے تو ہمارے سیکیورٹی ادارے اس قابل ہیں کہ صورتحال پر قابو پاسکے ۔ دوسری جانب اے این پی کے سابق مرکزی ترجمان زاہد خان نے ایک خصوصی انٹرویو میں کہا کہ دہشت گردوں کے ساتھ صوبے کی حکمران جماعت اس سے قبل اس نوعیت کے مذاکرات کر چکی ہے اور اسی کا نتیجہ ہے کہ سینکڑوں کی تعداد میں افغانستان سے دہشت گرد لاکر پاکستان پر ہونے والی حالیہ بدترین حملوں کا راستہ ہموار کیا گیا ۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے بھی طالبان کے ساتھ سوات معاہدہ کیا تھا مگر اس پراسیس کو پارلیمنٹ سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کی حمایت حاصل تھی اور جب بات نہیں بنی تو سوات آپریشن کا کامیاب تجربہ کیا گیا ۔ ان کے بقول کسی بھی دوسرے ملک سے اس طرح کے مذاکرات یا رابطہ کاری صوبائی حکومت کے ڈومین ہی میں نہیں آتا کیونکہ 1973 کے آئین کے مطابق یہ فیڈرل سبجیکٹ ہے۔
ممتاز تجزیہ کار رضوان رضی نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعلیٰ گنڈاپور اپنے لیڈر کے مزاج اور ہدایات کے مطابق انتشار اور بد اعتمادی پیدا کرنے کی ” مہم جوئی” میں مصروف عمل ہیں حالانکہ ان کو علم ہونا چاہیے کہ یہ سب کچھ ان کے دائرہ اختیار ہی میں نہیں آتا ۔ یہ پولیٹیکل پوائنٹ اسکورنگ کے علاوہ اسٹیبلشمنٹ اور وفاقی حکومت پر پریشر ڈالنے کا ایک حربہ ہے۔
سینئر تجزیہ کار حماد حسن کے مطابق ان کی جب طالبان کے ایک سینئر رہنما سے اس موضوع پر بحث ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ مذاکرات اچھی بات ہے مگر ہم کو اچھی طرح معلوم ہے کہ یہ معاملہ مرکزی حکومت کے دایرہ اختیار میں آتا ہے ۔
تجزیہ کار حسن ایوب کے مطابق اس سے ثابت یہ ہوتا ہے کہ صوبائی حکومت طالبان وغیرہ کو سہولیات فراہم کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے اور چاہتی ہے کہ فوج کو درمیان میں سے نکال کر صوبے کو طالبان کے قبضے میں دیا جائے ۔ ان کے مطابق فوج سیکورٹی کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے صوبائی حکومت کی ریکوزیشن پر تعینات ہوتی ہے اگر وزیر اعلیٰ کو فوج کی تعیناتی پر اعتراض ہے اور وہ معاملات کو سنبھال سکتے ہیں تو ریکوزیشن واپس کریں تاہم اس کے نتیجے میں اگر معاملات مزید خراب ہوتے ہیں تو جوابی ردعمل میں فوج کو دہشت گردوں کے علاوہ ان مٹھی بھر سیاسی عناصر سے بھی نمٹنا پڑے گا۔
اینکر پرسن ثناء مرزا نے اپنے تبصرے میں کہا ہے کہ وزیر اعلیٰ کے اس اعلان نے نہ صرف سیاسی کشیدگی میں مزید اضافے کا راستہ ہموار کردیا ہے بلکہ ملک کی سلامتی کے تناظر میں ملک میں ایک ہلچل کی صورتحال بھی پیدا کردی ہے ۔ ان کے مطابق یہ بات بھی قابل تشویش ہے کہ علی امین گنڈاپور کے صوبے کی پولیس بعض علاقوں میں ہڑتال پر ہے ۔ دوسری طرف عوام کی ایک بڑی تعداد نے بھی وزیر اعلیٰ کے اس بیان کو مسترد کرتے ہوئے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے اور موقف اختیار کیا ہے کہ اس سے صوبہ طالبان کے قبضے میں چلا جائے گا اور حالات کنٹرول سے باہر ہوں گے اس لیے وفاقی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ اس قسم کی سرگرمیوں اور کوششوں کا تدارک کریں۔
عقیل یوسفزئی