افغانستان کی عبوری حکومت اور طالبان کے دو بڑے گروپوں کے درمیان جاری اختلافات نے اب باقاعدہ کشیدگی کی شکل اختیار کرلی ہے اور حقانی نیٹ سے کابل کی سیکورٹی سمیت دیگر انتظامی اختیارات واپس لیے گئے ہیں ۔ دوسری جانب کسی متوقع کارروائی سے بچنے کے لیے افغان طالبان کے سربراہ مولوی ہیبت اللہ آخوند قندھار میں محصور ہوکر رہ گئے ہیں اور ان کی سیکورٹی سخت کردی گئی ہے ۔ بانی امارات اسلامیہ ملا عمر کے بیٹے اور اہم وزیر ملا یعقوب کے بارے میں اطلاعات ہیں کہ وہ قندھاری اور حقانی نیٹ ورک کے درمیان مصالحت کی کوشش کررہے ہیں مگر تاحال حقانی نیٹ ورک کے سربراہ سراج الدین حقانی ماننے کو تیار نہیں ہیں اور سراج الدین ، ستانکزئی کے بعد متعدد دیگر وزراء کے بارے میں اس قسم کی اطلاعات زیر گردش ہیں کہ وہ بھی یو اے ای ، سعودی عرب اور قطر منتقل ہوگئے ہیں یا فرار ہوئے ہیں ۔
ذرائع کے مطابق اختلافات نے شدت اختیار کرلی ہے اور خدشہ ہے کہ افغانستان کی عبوری حکومت میں شامل دو بڑے گروپ یعنی مولوی ہیبت اللہ آخوند کا قندھاری گروپ اور حقانی نیٹ ایک دوسرے کے خلاف باقاعدہ جنگ کا آغاز نہ کردیں ۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق خانی جنگی سے بچنے کے لیے ملا عمر کے بیٹے ملا یعقوب بنیادی کردار ادا کررہے ہیں مگر کشیدگی میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہا ہے اور انتظامی طور پر افغانستان دو مخالف دھڑوں کے انتظامی اختلافات میں تقسیم ہوگیا ہے ۔
رپورٹس کے مطابق افغانستان میں کسی بھی وقت خانی جنگی کا آغاز ہوسکتا ہے اور متعدد ممالک نے اپنے مشنز کو نقل وحرکت سے منع کردیا ہے ۔ اس کشیدگی نے کالعدم ٹی ٹی پی کو بھی دو گروپوں میں تقسیم کردیا ہے تاہم ٹی ٹی پی کا زیادہ جھکاؤ تاحال حقانی نیٹ ورک کی جانب ہے کیونکہ یہ نیٹ ورک انتظامی طور پر ان صوبوں میں زیادہ فعال ہے جن کی سرحدیں پاکستان کے ساتھ ملی ہوئی ہے اس لیے کالعدم ٹی ٹی پی قندھاری گروپ سے زیادہ حقانی نیٹ ورک کے قریب ہے تاہم بعض سینئر کمانڈرز قندھاری گروپ کے حامی ہیں ۔
بعض معتبر ذرائع نے ” غگ ” کو بتایا کہ ملا یعقوب کے علاوہ القاعدہ کے بعض اہم رہنما بھی مصالحت کی کوششوں میں مصروف عمل ہیں کیونکہ ان کا خیال ہے کہ اس کشیدگی سے نہ صرف یہ کہ پاکستان اور امریکہ فایدہ اٹھائیں گے بلکہ داعش کی طاقت میں بھی اضافہ ہوسکتا ہے ۔
دوسری جانب اقوام متحدہ میں پاکستان کے مندوب نے انتہائی سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ افغانستان کی عبوری حکومت کو اس بات کا پابند کیا جائے کہ وہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہونے دیں اور یہ کہ پاکستان کے خلاف ہونے والی کارروائیوں میں افغان طالبان کی ہلاکتوں کے جو شواہد سامنے آئے ہیں ان کے تناظر میں عالمی سطح پر افغان حکومت کے خلاف نوٹس لیا جائے ۔ پاکستان نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ قبائلی علاقوں میں فورسز کی کارروائیوں کے دوران اہم افغان کمانڈرز کی ہلاکتوں کے بعد پاکستان یہ حق محفوظ رکھتا ہے کہ وہ افغانستان کی عبوری حکومت کے خلاف تمام دستیاب آپریشنز استعمال کرے اور اس سلسلے میں افغان عبوری حکومت پر پاکستان کا دباؤ مسلسل بڑھتا جارہا ہے ۔
![](https://voiceofkp.org/wp-content/uploads/2025/02/Screenasdasshot_1-280x180.jpg)