عقیل یوسفزئی
نامور گلوکار گلزار عالم نے کہا ہے کہ پشتون بدترین قسم کی تہذیبی نرگسیت سے دوچار ہیں جس کے ذریعے پشتونوں کے ذہنوں میں یہ بات بٹھائی گئی ہے کہ یہ بہت بہادر ہیں اور دوسری اقوام سے منفرد ، مختلف ہیں ۔ ٹک ٹاک کے سیریز ” د شعور غگ “؛ میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پشتونوں کے ذہنوں میں بھٹائی گئی یہ بات بہت خطرناک ہے کہ یہ بہت بہادر قوم یے یا یہ پشتون اس پس منظر میں ” نارمل” لوگ نہیں ہیں۔ ان کے بقول اس خطبے میں جاری جنگ کے متعدد اسباب ہیں جن پر شعوری بحث کی ضرورت ہے اور اس ضمن میں بحیثیت پشتونوں کو میڈیا میں سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔
اسی نشست میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی فاروق فراق نے کہا کہ پشتونوں کو تلخ حقائق کا اعتراف کرتے ہوئے خود سے متعلق غلط بیانیہ کی تصحیح پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ جب تک ہم تہذیبی نرگسیت کے خول سے باہر نہیں نکلتے تب تک مسائل موجود رہیں گے ۔ ان کے بقول ہمیں جدید دور کے میڈیا پلیٹ فارمز کے ذریعے دہشت گردی اور انتہا پسندی جیسے مسائل اور ایشوز پر بحث کرنی ہوگی کیونکہ محض سیاسی بیان بازی سے ان ایشوز اور مسائل سے چھٹکارا حاصل کرنا ممکن نہیں ہے۔
سینیر تجزیہ کار ناصر داوڑ نے اس نشست میں گفتگو کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ سوشل میڈیا کو تنقید کا نشانہ بنانے کی بجائے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم بامقصد موضوعات پر سنجیدہ بحث کو فروغ دینے کی کوشش کریں اور دوسروں کو مورد الزام ٹھرانے کی بجائے اپنی کمزوریوں کا اعتراف کریں ۔ ان کے مطابق دور جدید کے چیلنجز پر حقیقت پسندانہ بحث کی اشد ضرورت ہے کیونکہ مین سٹریم میڈیا نے پشتونوں کی شناخت کے مسئلے کو پیچیدہ بنادہے۔
باصلاحیت نوجوان صحافی ارشد مومند نے اپنے تبصرے میں سوال اٹھایا کہ پشتون برسوں سے جنگی صورتحال کا سامنا کیوں کررہے ہیں!؟ انہوں نے کہا کہ جاری جنگ اور بدامنی نے پشتونوں کے سماجی ڈھانچے کو جس طریقے سے متاثر کیا ہے اس پر بحث کی اشد ضرورت ہے ۔ مذکورہ نشست میں شریک نامور گلوکار سردار یوسفزئی سمیت اس ” پلیٹ فارم” کے منتظمین اور شرکاء نے کہا کہ پشتونوں کو درپیش چیلنجز کے اسباق و عوامل کا جائزہ لینا ہوگا اور اس پراسیس میں مین سٹریم میڈیا کے یکطرفہ بیانیہ کو سوشل میڈیا کے ذریعے کاؤنٹر کرنے کی ضرورت ہے۔


