ایک سیدھے سادھے جمہوری اور آئینی طریقہ کار کے مطابق تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک چلائی گئی جس کے نتیجے میں ان کو وزارت عظمیٰ کی کرسی سے ہٹا دیا گیا تاہم عمران خان ان کے پارٹی لیڈر اور کارکن اس جمہوری عمل کو نہ صرف ایک عالمی سازش کا نام دیا بلکہ اس مزاحمتی رویہ کے دوران انہوں نے اپوزیشن کو غدار اور بکاؤ کہنے سمیت سپریم کورٹ اور پاک فوج پر بھی بعض ایسے سنگین الزامات لگائے جس کی مثال نہیں ملتی۔
پہلا سوال تو عمران خان سے یہ کیا جاسکتا ہے کہ اپوزیشن کا ایک اقدام آئینی تھا یا نہیں؟
دوسرا یہ کہ ان کی حکومت سے امریکہ کو کون سا خطرہ لاحق تھا؟ جس پر ان کے خلاف سازش ہوئی۔
تیسرا یہ کہ انہوں نے کس بنیاد پر اپوزیشن، عدلیہ اور فوج کو غدار کہہ کر متنازعہ بنایا؟
چوتھا یہ کہ انہوں نے فوج کو جان بوجھ کر اپنی حکومت بچانے کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کیوں کی؟
پانچواں یہ کہ فوج کے خلاف ان کے وزراء کی موجودگی میں جو نعرے لگائے گئے کیا وہ محض اتفاق تھا یا پلاننگ؟
سچی بات تو یہ ہے کہ فوج نے اس تمام عرصہ کے دوران نہ صرف ان کی حکومت اور جمہوری اداروں کی حمایت کی بلکہ عمران خان سے خارجی معاملات میں جتنی غلطیاں ہوتی رہیں ان کو درست کرنے آرمی چیف وقتاً فوقتاً مختلف ممالک کا خود دورہ کرتے رہے۔ اس ضمن میں ہم دوسروں کے علاوہ چین، یو اے ای، برطانیہ اور سعودی عرب کی مثال دے سکتے ہیں جہاں آرمی چیف معاملات سدھارنے خود گئے جبکہ سی پیک وغیرہ کو لاحق خطرات بھی وہ دور کرتے گئے۔
رہی بات امریکہ کی تو پاکستان نے کبھی اس کو قابل بھروسہ دوست یا اتحادی قرار نہیں دیا تاہم اس حقیقت کو بھی جھٹلایا نہیں جا سکتا کہ امریکہ روز اول سے نہ صرف ہمارا اتحادی رہا ہے بلکہ وہ دوطرفہ تحفظات کے باوجود متعدد بار ہمارے ساتھ کھڑا بھی رہا ہے۔ اس کے مقابلے میں روس کی کارکردگی یا حمایت ہمارے لئے کبھی قابل ذکر یا قابل ستائش نہیں رہی۔
ملٹری لیڈرشپ نے عمران خان کی مبینہ حمایت یا تعاون کے بدلے لمبے عرصے تک اپوزیشن، میڈیا، سول سوسائٹی اور عوام کی براہ راست تنقید کا سامنا کیا مگر عمران خان اس کے باوجود ملٹری کی بدنامی کا باعث بنے رہے ، وہ ڈلیور کرنے میں ناکام رہے اور جب ملٹری لیڈرشپ نے عدم اعتماد کے آئینی پر اسس کے دوران خود کو غیر جانبدار کیا تو عمران خان اور ان کے حامیوں نے تصادم اور کشیدگی کا راستہ اپنا کر سنگین نوعیت کے الزامات اور ایک خطرناک بیانیہ اپنا کر اپوزیشن کے ساتھ سپریم کورٹ اور فوج کو بھی متنازعہ بنایا اور غداری کے الزامات لگانے سے بھی گریز نہیں کیا۔
سوال یہ ہے کہ اپوزیشن کے علاوہ اہم قومی اداروں کو متنازعہ، بکاؤ اور غدار قرار دینے کا حق عمران خان کو کس نے دیا ہے اور وہ حالیہ بیانیے سے ملک کی کون سی خدمت کر رہے ہیں؟
ان کو یہ جواب بھی دینا پڑے گا کہ اگر ایک انکوائری کے نتیجے میں مراسلہ کی تحقیقات کی گئیں اور ان کے سازش والے الزامات غلط ثابت ہوگئے تو اس سے جو نقصان ہوا ہے اس کی تلافی کون کرے گا؟
یہ درست ہے کہ فوج کو سیاست میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے مگر اس بات کا بھی جائزہ لینا پڑے گا کہ عمران خان اور دوسرے سیاستدان بار بار فوج کو سیاست میں گھسیٹنے کی کوشش کیوں کرتے ہیں اور جب ان کے مفادات کا دفاع نہیں کیا جاتا تو وہ تصادم پر کیوں اتر آتا ہیں۔
ماضی کے اقدامات اور غلطیوں پر ماتم کرنے اور سازشی تھیوریاں اپنانے کی بجائے اس بات کا جائزہ لینا ضروری ہو گیا ہے کہ ہم اپنے اداروں کو آئینی طریقہ کار کے مطابق کس طرح غیر متنازعہ اور مضبوط بنا سکتے ہیں اور یہ کتنا ضروری ہے کہ ڈرٹی پالیٹکس کے بعد ڈرٹی لینگویج کے حالیہ رویے کا خاتمہ کرکے اپنی قیادت اور اداروں کو غدار اور مشکوک قرار دینے کا سلسلہ کیسے ختم کرتے ہیں۔
وقت آ گیا ہے کہ جو عناصر اداروں کو متنازعہ اور فریق بنانے کی مہم پر چل پڑے ہیں ان کا ادارہ جاتی سطح پر محاسبہ کیا جائے اور قومی سلامتی اور مفاد کو مذاق سمجھنے والے عناصر سے باز پرس کی جائے تاکہ اس خطرناک رویے کا عملی طور پر خاتمہ کرکے سیاست میں شائستگی اور برداشت کی کلچر کو فروغ دیا جاسکے اور درپیش چلینجز میں سیاسی اور جماعتی وابستگی، اختلافات کے باوجود بحیثیت قوم نمٹا جا سکے۔