عقیل یوسفزئی
خیبر پختون خوا کے اہم شہر ڈیرہ اسماعیل خان میں گزشتہ روز ہونے والے ایک خودکش حملے کے نتیجے میں پاکستانی سیکیورٹی فورسز کے 25 جوان شہید جبکہ متعدد زخمی ہوگئے ہیں. دوسری جانب فورسز نے کارروائیاں کرتے ہوئے 27 دہشتگردوں کو ہلاک کردیا ہے جبکہ مختلف علاقوں میں فورسز کی جانب سے سرچ آپریشنز جاری ہیں تاکہ علاقے کو محفوظ بنایا جائے. میڈیا رپورٹس کے مطابق تقریباً 6 دہشت گردوں نے ڈیرہ اسماعیل خان کے نواحی علاقے درابن میں واقع ایک پولیس سٹیشن پر منگل کی علی الصبح اس وقت بارود سے بھری گاڑی کے ہمراہ حملہ کیا جب پولیس اور قریب ایک عارضی عمارت میں موجود پاک فوج کے جوانوں کی اکثریت سورہی تھی. فورسز نے فوری طور پر ردعمل دیا اور حملہ آوروں کو نشانہ بنایا تاہم بارودی مواد سے بھری گاڑی نے عمارت کو ہٹ کیا جس سے عمارت کی چھت بیٹھ گئی اور دو درجن سے زائد جوان شہید ہوگئے.
فورسز نے ایکشن لیتے ہوئے جوابی کارروائی کے طور پر 27 دہشت گردوں کو ٹھکانے لگادیا. حملے کی اطلاع پاکر کور کمانڈر پشاور، آئی جی ایف سی، آئی جی پولیس پختونخوا اور دیگر حکام ڈیرہ اسماعیل خان پہنچ گئے جہاں انہوں نے نہ صرف صورتحال کا جائزہ لیا بلکہ زخمیوں کی عیادت کی اور شہداء کی نماز جنازہ میں شرکت کی. اس موقع پر شہداء کو شاندار انداز میں سرکاری اعزاز کے ساتھ خراج عقیدت پیش کی گئی. اعلیٰ سول، عسکری قیادت کے علاوہ مختلف پارٹیوں کے سربراہان اور علماء نے اس واقعے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اپنے بیانات میں دہشت گردی کے خاتمے تک پرعزم انداز میں جنگ جاری رکھنے کا اعلان کردیا ہے. دوسری جانب وزارت خارجہ میں افغان ناظم الامور کو ہنگامی بنیادوں پر طلب کرکے ان سے ایسے حملوں میں ملوث دہشت گرد گروپوں کے خلاف کارروائی اور واقعے کی رسمی مذمت کا مطالبہ کیا گیا ہے.
آئی ایس پی آر کے مطابق حملے کا پہلے ہی مرحلے میں جواب دیا گیا جس کی وجہ سے حملہ آور چیک پوسٹ پر قبضہ کرنے اور پولیس اسٹیشن میں گھسنے میں ناکام ہوگئے تاہم خودکش حملے کے نتیجے میں 25 جوان شہید ہوئے.
جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے ایک انٹرویو میں کہا کہ ڈیرہ اسماعیل خان، ٹانک، لکی مروت، بنوں اور دیگر علاقوں میں روزانہ کے حساب سے ایسے حملے جاری ہیں اور شہادتیں ہورہی ہیں یہی وجہ ہے کہ ہم اس کے باوجود الیکشن کے تناظر میں سیکیورٹی کی صورتحال بارے تشویش کا اظہار کرتے آرہے ہیں کہ ہم الیکشن کے لئے تیار ہیں اور اس کا بروقت انعقاد چاہتے ہیں. اے این پی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان نے بھی اس صورت حال پر افسوس اور تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ صوبے کو حالت جنگ کا سامنا ہے فورسز کے علاوہ ان کی پارٹی سمیت متعدد دیگر پارٹیوں کو بھی سیکورٹی صورتحال کے باعث انتخابی مہم چلانے میں رکاوٹیں درپیش ہیں.
سینئر تجزیہ کار حسن خان کے مطابق یہ امر قابل افسوس ہے کہ پاکستان کی مین سٹریم پارٹیاں اور میڈیا خیبر پختونخوا کی سیکیورٹی کے حالات سے لاتعلق ہیں اور فورسز کو مسلسل قربانیاں دینی پڑ رہی ہیں. ان کے مطابق اگر فورسز کی اتنی بڑی تعداد کسی اور ملک میں شہید اور زخمی ہوئی ہوتی جتنی ڈیرہ اسماعیل میں ہوئی ہے تو ملک میں سوگ کا اعلان کیا جاتا اور تمام سیاسی سرگرمیاں معطل کی جاتیں. باصلاحیت صحافی عرفان خان نے اپنے تبصرے میں کہا کہ پاکستان کی عسکری اور سیاسی قیادت دہشت گردی کے معاملے پر نہ صرف ایک پیج پر ہیں بلکہ دہشت گرد قوتوں اور افغان عبوری حکومت پر بھی یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ پاکستان اب کسی رعایت یا لاتعلقی کے موڈ میں نہیں ہے اس لیے انہوں نے حملوں کی تعداد بڑھائی ہے اور اس سے نمٹنے کیلئے فورسز بھی مسلسل کارروائیاں کرتی جارہی ہیں اس لئے اس قسم کے حملے غیر متوقع نہیں ہیں تاہم اس صورت حال سے نمٹنے کیلئے سیاسی جماعتوں کو ریاست کے ساتھ تعاون کرنا ہوگا.
ماہر تعلیم، محقق ڈاکٹر جمیل احمد چترالی نے اپنے ردعمل میں کہا کہ پاکستان، اسکی قیادت اور عوام کو دہشت گردی کے خلاف متحد ہوکر امریکہ اور دیگر متعلقہ ممالک کو اب واضح پیغام دینا ہوگا کہ افغانستان میں جس انداز میں دہشت گرد قوتیں منظم ہورہی ہیں یہ ممالک اس سے نمٹنے کیلئے پاکستان کے ساتھ کھڑے ہوجائے کیونکہ پاکستان نے 20 برسوں تک ان کے ساتھ تعاون کیا ہے.
بہرحال اس تلخ حقیقت کے باوجود کہ پاکستان کی کاونٹر ٹیررازم بہت موثر رہی ہے اور معاملات کافی پیچیدہ بھی ہیں ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان کے تمام اسٹیک ہولڈرز دہشتگردی اور انتہا پسندی کے علاوہ پاکستان مخالف پروپیگنڈا مہم سے نمٹنے کیلئے ایک پیج پر آجائیں کیونکہ پاکستان بعض عالمی طاقتوں، علاقائی حریفوں کی مختلف نوعیت کی سازشوں سے دوچار ہے اور حالات سب سے قومی اتحاد کا تقاضا کررہے ہیں.