پاکستان تحریک انصاف کی مذاکراتی ٹیم نے حکومت کے ساتھ جاری مذاکراتی عمل کے ختم ہونے کا اعلان کردیا ہے ۔ چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر نے ٹھوس وجوہات بتائے بغیر اعلان کیا کہ بانی پی ٹی آئی نے مذاکراتی عمل کے خاتمے کا حکم دے رکھا ہے اس لیے مزید مذاکرات نہیں کیے جائیں گے ۔ دوسری جانب حکومتی مذاکراتی ٹیم کے اہم رکن سینیٹر عرفان صدیقی نے اس فیصلے کو مایوس کن قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت مذاکراتی عمل میں سنجیدہ تھی اور ہماری کوشش رہی کہ سیاسی کشیدگی میں کمی واقع ہو مگر پی ٹی آئی نے اپنے بانی کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے یکطرفہ اعلان کردیا ۔ ان کے بقول پی ٹی آئی کے تمام فیصلے عمران خان کی ذات کے گھرد گھومتے ہیں اور باقی رہنماؤں کی بات یا آراء کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔
اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے ممتاز تجزیہ کار عمار مسعود نے کہا کہ مذاکرات کے معاملے پر پی ٹی آئی میں پہلے ہی سے کنفیوژن موجود تھی اور پیدا ہونے والی ڈیڈلاک غیر متوقع نہیں تھی ۔ ان کے بقول پی ٹی آئی پہلے حکومت کی بجائے اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کی خواہش اور کوشش کرتی رہی تاہم جب اسٹیبلشمنٹ نے ایسا کرنے سے انکار کردیا تو نہ چاہتے ہوئے پی ٹی آئی اس حکومت کے ساتھ مذاکرات کرنے بیٹھ گئی جس کو یہ پارٹی حکومت ہی تسلیم نہیں کرتی۔
دوسری جانب خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور نے ایک اور تنازعہ کھڑا کرتے ہوئے پھر سے اعلان کردیا ہے کہ صوبائی حکومت اپنے طور پر افغانستان کی عبوری حکومت کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کرنا چاہتی ہے کیونکہ ان کے بقول وفاقی حکومت کا مذاکراتی عمل ناکام ہوچکا ہے ۔ ایک تو یہ کہ موجودہ وفاقی حکومت نے افغان حکومت کے ساتھ کوئی رسمی مذاکرات نہیں کیے پتہ نہیں وزیر اعلیٰ کس مذاکراتی عمل کا ذکر کررہے ہیں ۔ دوسرا یہ کہ رولز آف بزنس کے تحت کسی اور ملک یا حکومت سے مذاکرات صوبائی حکومت کا ڈومین اور دایرہ اختیار ہی نہیں ہے ۔ صوبائی حکومت اس سے قبل یہ کوشش کرتی رہی ہے جس میں اسے نہ صرف ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے بلکہ اسی مذاکراتی عمل کا نتیجہ ہے کہ خیبرپختونخوا گزشتہ دو برسوں سے بدترین قسم کی بدامنی سے دوچار ہے۔
وزیر اعلیٰ نے مذکورہ بیان کے دوران یہ بھی کہا ہے کہ ہم اس افغان حکومت یا طالبان کے ساتھ لڑررہے ہیں جنہوں نے امریکہ اور نیٹو کو شکست دی ہے ۔ وزیر اعلیٰ اس دلیل سے کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں وہ سمجھ سے بالاتر ہے کیونکہ ایک تو امریکہ ایک معاہدے کے تحت افغانستان سے نکلا ہے اور دوسرا یہ کہ اگر افغانیوں نے سوویت یونین یا امریکہ وغیرہ کو واقعتاً شکست دی ہے تو اس ” کریڈٹ ” میں پاکستان اور متعدد دیگر ممالک بھی شامل ہیں ۔ وزیر اعلیٰ سمیت بعض دیگر حلقے اس تمام صورتحال اور معاملے کو مقامی سمجھ کر جس طریقے سے ہلکا اور آسان لے رہے ہیں ویسے بلکل نہیں ہے ۔ تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ جاری بدامنی کے بعض دیگر اسباب کے علاوہ ایک بنیادی وجہ پی ٹی آئی اور اس کی صوبائی حکومت کی پرو طالبان پالیسی بھی ہے اس لیے حقائق کا ادراک کرتے ہوئے پی ٹی آئی اور صوبائی حکومت اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کریں اور صوبائی حکومت کی ترجیحات اور کارکردگی پر نظر ثانی کی جائے۔
عقیل یوسفزئی