افغان حکومت اور پی ٹی آئی کے موقف پر سخت ردعمل کا اظہار

متعدد اہم وزراء اور ممتاز تجزیہ کاروں نے پاکستان خصوصاً خیبرپختونخوا میں جاری دہشتگردی کی لہر اور پاک افغان تعلقات کے تناؤ کو سابق وزیر اعظم عمران خان کی پرو طالبان پالیسیوں کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے وہ ذاتی بیانات اور عملی اقدامات ریکارڈ پر موجود ہیں جن میں وہ نہ صرف یہ کہ افغان طالبان اور دیگر کی کھل کر حمایت کرتے دکھائی دیتے ہیں بلکہ وہ افغانستان سے کالعدم ٹی ٹی پی کے ہزاروں دہشت گردوں کا کریڈٹ بھی لیتے رہے ہیں ۔ وفاقی وزیر اطلاعات عطاء تارڑ نے گزشتہ روز پریس کانفرنس میں کہا کہ دہشت گرد خیبرپختونخوا کے مختلف علاقوں میں دندناتے پھر رہے ہیں اور جس وقت کرم اور دیگر متاثرہ علاقوں کے عوام کو پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت کے اقدامات اور ہمدردی کی ضرورت تھی خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ اسلام آباد پر چڑھائی کی مہم جوئی میں مصروف تھے ۔ ان کے بقول خیبرپختونخوا کو بدامنی کے علاوہ بدترین قسم کی بیڈ گورننس اور کرپشن کا سامنا ہے اور تقریباً 150 ارب کے کرپشن کے ثبوت سامنے آئے ہیں۔

وفاقی وزیر خواجہ آصف کے مطابق پی ٹی آئی نہ صرف ایک فسادی پارٹی ہے بلکہ اس کے بانی دہشت گردوں کے حمایت بھی کرتے رہے ہیں اور اسی پالیسی کا نتیجہ ہے کہ انہوں نے گزشتہ روز دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر پاکستان کے حملوں کی کھل کر مذمت کی ۔ ان کے بقول یہ بہت عجیب بات ہے کہ ایک طرف تو اب یہ لوگ امریکہ سے مدد طلب کررہے ہیں اور دوسری جانب پاکستان پر حملے کرنے والوں کی کھل کر حمایت کررہے ہیں ۔ انہوں نے مزید کہا کہ آج پاکستان کے اندر بدامنی کی جو لہر جاری ہے اس کی ذمہ داری بانی پی ٹی آئی اور ان کے سہولت کاروں پر عائد ہوتی ہے۔

وفاقی وزیر احسن اقبال نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے اندر جاری حملے ناقابل برداشت ہیں اور جو عناصر کسی بھی جواز کی آڑ میں دہشت گردوں کی حمایت کرتے ہیں ان کو سہولت کار سمجھا جائے گا ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے عام شہریوں کے علاوہ جن 383 سیکورٹی افسران اور جوانوں کو 2024 کے دوران شہید کردیا گیا ان کے قاتلوں کی وکالت کیسے کی جاسکتی ہے۔

دوسری جانب سینئر صحافی اور تجزیہ کار رؤف کلاسرا نے اپنی وی لاگ اور ٹی وی پروگرام میں اس بات پر تشویش کا اظہار کیا کہ عمران خان کے دور حکومت میں دہشت گردوں کی آباد کاری کے لئے پوری مہم چلائی گئی اور اس مہم میں اس وقت کے متعدد اہم عہدے دار شامل تھے ۔ انہوں نے مزید کہ ایسے ہی یکطرفہ اور غلط فیصلوں کے باعث آج نہ صرف یہ کہ پاکستان حالات جنگ میں ہے بلکہ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات بھی کشیدگی کی انتہا پر پہنچ گئے ہیں حالانکہ پاکستان نے دوحہ معاہدے سمیت ہر مرحلے پر افغانیوں کی مدد کی ۔ رؤف کلاسرا نے مزید کہا کہ یہ بات بہت عجیب لگ رہی ہے کہ ایک سابق وزیر اعظم دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں کی مخالفت اور مذمت کرتے دکھائی دیے۔

سینئر صحافی ہارون الرشید نے اپنے تبصرے میں کہا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات واقعتاً بہت کشیدہ ہیں اور اس کی بنیادی وجہ افغانستان میں کالعدم ٹی ٹی پی کی موجودگی ہے ۔ ان کے بقول پاکستان نے 2024 کے دوران پاکستان بالخصوص خیبرپختونخوا میں بے شمار حملے برداشت کرنے کے علاوہ ریکارڈ کارروائیاں بھی کیں مگر دہشت گردی بڑھتی گئی اور 2025 کے دوران بھی کوئی مثبت تبدیلی نظر نہیں آتی ۔
نوجوان صحافی محمد عمران کے مطابق سابق وزیراعظم مختلف بیانات اور انٹرویوز میں خود اس بات کا اعتراف کرتے دکھائی دیے کہ افغانستان سے ہزاروں خوارج یا دہشت گردوں کو واپس لانا لازمی ہے ۔ ان کے مطابق خیبر پختونخوا کی پی ٹی آئی حکومت پر گورنر اور مختلف پارٹیوں کے قائدین مسلسل یہ الزامات لگاتے آرہے ہیں کہ یہ حکومت عمران خان کی پالیسی کے مطابق نہ صرف دہشت گردوں کی سہولت کاری کرتی رہی ہے بلکہ اس کے لیڈرز ، وزراء اور ممبران اسمبلی بھتہ بھی دیتے رہے ہیں۔

عقیل یوسفزئی

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket