وصال محمد خان
وطن عزیز پاکستان کے باسی عرصہ دراز سے یہ سنتے آرہے ہیں کہ معیشت کی حالت خراب ہے، معیشت زبوں حالی کاشکارہے اورمعاشی اعشارئے درست سمت کی نشاندہی نہیں کررہے۔ معیشت کی ابتری کن وجوہات سے عمل میں آئی اوراسے درست کس طرح کیا جاسکتا ہے یہ ملین ڈالرزسوال ہے اگر جائزہ لیا جائے کہ معیشت اس بدتر صورتحال سے دوچار کیوں ہوئی تواسکی وجوہات پرہزاروں صفحات کالے کئے جاسکتے ہیں بنیادی طورپرچونکہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے اوراسکی 70فیصدآبادی زراعت سے وابستہ ہے مگربدقسمتی دیکھئے کہ اسکے باوجود ہمیں گندم جیسی بنیادی ضرورت کی جنس درآمدکرناپڑرہی ہے یہاں ہرحکومت گندم کٹائی کی سیزن میں سرگرداں رہتی ہے کہ گندم کی پیداوار کم ہوئی توکہاں سے سستی گندم ملے گی تاکہ ملکی ضروریات پوری ہوں، گنے کی کرشنگ سیزن کے دوران حکومت اس فکرمیں مبتلادکھائی دیتی ہے کہ چینی کی پیداوارکتنی کم ہوگی تاکہ ملکی ضروریات کیلئے آرڈرزدئے جائیں، یہ حالات یقیناًالمئے سے کم نہیں کہ زرعی کہلانے والاملک برآمدتوکیاکرے گادرآمدکی فکرمیں مبتلارہتاہے زرعی زمینیں دھڑادھڑ رہائشی اوردیگرمقاصدکیلئے استعمال کی جارہی ہیں اگریہی ٹرینڈجاری رہاتوہم مستقبل قریب میں قحط سالی کاشکارہوسکتے ہیں ہماری مجموعی قومی آمدن انتہائی کم ہے ہماری قوم محنتی قوم نہیں ہے بلکہ یہ تن آسانی کے سبب کوئی مناسب پیشہ تک اختیارکرنے سے قاصرہے،پیشہ ورانہ سکیلز نہ ہونے کے برابرہے،ملک کے اندربھی غیرہنرمندمزدوروں کی بہتات ہے اورباہربھی ہم یہی جنس ایکسپورٹ کرتے ہیں، یہاں اکثرلوگ یہ شکوہ کرتے نظرآتے ہیں کہ بیرونی قرضے حکمرانوں کی غلط پالیسیوں اورکرپشن کے سبب بڑھے ہیں یہ کسی حدتک درست بھی ہے مگراصل حقیقت یہ ہے کہ قرضے چڑھنے کی وجہ منصوبہ بندی کے فقدان سمیت قوم کاالاابالی پن اورعیاشانہ مزاج بھی ہے ایک اندازے کے مطابق ہم سالانہ پانچ ارب ڈالرزکی چائے درآمدکرتے ہیں،پانچ ارب ڈالرزسگریٹ کے دھویں میں اڑادیتے ہیں، پانچ سات ارب کاشیمپو،صابن اورمیک اپ کاسامان منگواتے ہیں،پانچ دس ارب ڈالرزکے موبائل فونزاورالیکٹرانک آلات منگواتے ہیں،پانچ ارب کی شراب منگواتے ہیں،اسی طرح کاریں اوردیگرپرتعیش اشیاسمیت کئی غیرضروری چیزیں منگواتے ہیں جس کے بغیربھی گزاراممکن ہے ہم اگرچائے،سگریٹ،پرفیومز،شیمپو،الیکٹرانک آلات،شراب،موبائل،کمپیوٹرزاورگاڑیوں کی درآمدکو قابوکریں توہمارے بہت سے مسائل کاحل ممکن ہے آئی ایم ایف کے آگے ہمارے وزیر اعظم اوروزیر خزانہ ایک دوارب ڈالرزکیلئے ہاتھ پیرجوڑتے رہتے ہیں مگرہم پانچ ارب ڈالرز چائے کی چسکی میں اڑادیتے ہیں ہم محنت ایک ہزارروپے کی کرتے ہیں جبکہ اس کامعاوضہ پانچ ہزارکی صورت میں چاہتے ہیں اگرمطلوبہ رقم نہیں ملتی توہم رشوت چوری،ڈاکہ،رہزنی اورکرپشن پرآمادہ نظر آتے ہیں مگراپنے اخراجات کم کرنے پرتیارنہیں ہوتے ہمارے ہاں کاایک عام آدمی بھی لگژری آسائشیں مانگتاہے مگراسکے لئے محنت کرنے کی بجائے کوئی شارٹ کٹ تلاش کرتارہتاہے معیشت ہمارے اپنے ہی ہاتھوں بربادہورہی ہے اس میں کسی حکمران کاقصوراگرہوگاتویہ بیس فیصدسے زیادہ نہیں ہوگاہماری معیشت بہترہوسکتی ہے،ہم امیرممالک کی فہرست میں شامل ہوسکتے ہیں،ہماری غربت میں کمی واقع ہوسکتی ہے اگرہم اپنی طرزِ زندگی پرنظرثانی کیلئے تیارہوں ہمارے معاشی مسائل کاواحدحل جوہرخاص وعام کی سمجھ میں آرہاہے وہ یہی ہے کہ ہم درآمدات کی بجائے برآمدات بڑھانے پرتوجہ دیں ہم اس وقت اپنی آمدن سے زیادہ درآمدات کرتے ہیں ہمارے پاس پن بجلی کے لامتنا ہی وسائل موجود ہیں مگران سے فائدہ اٹھانے کی بجائے ہم مہنگی فنس آئل سے بجلی بناتے ہیں پھرہمارے واپڈاکے اہلکاراس قدرکرپٹ ہیں کہ وہ بجلی کی تقسیم میں غبن کواپناحق سمجھتے ہیں جوبھی شخص واپڈاکے کسی کمپنی میں ملازم ہوجاتاہے وہ دوچارسال کے اندرکوٹھی بناناشروع کر دیتاہے نجانے ان کے اوپریہ ہن کہاں سے برسناشروع ہوجاتاہے کہ واپڈاتوریکارڈخسارے کاشکارہے مگراسکے معمولی افسران واہلکاران کروڑوں کی کوٹھیوں میں رہتے ہیں اورلاکھوں کی گاڑیوں میں سفرکرتے ہیں بجلی کے شعبے نے ہماری معیشت کی کمرتوڑکررکھ دی ہے حالانکہ دوچارروپے یونٹ پڑنے والی بجلی ہم پچاس روپے یونٹ میں خریدرہے ہیں گردشی قرضے ختم کرنے کی بجائے ٹیرف بڑھانے پرزیادہ توجہ رہتی ہے ہم نے 75برس میں بجلی تقسیم کاجونظام کھڑاکیاہے یہ ہواکاایک جھونکایابارش کے دوقطرے برداشت کرنے کے قابل نہیں یعنی صرف بجلی کی مدمیں ہم سالانہ اربوں ڈالرزضائع کردیتے ہیں،گیس جس قیمت پرعوام کومل رہی ہے اس کاتقاضاہے کہ محکمہ گیس خودکفیل ہوبلکہ یہ اربوں روپے اثاثے بھی رکھتاہومگرکمال ہے کہ حکومت کواسے کئی ارب کاانجیکشن لگاناپڑتاہے تب کہیں جاکر یہ محکمہ پیاسے کوسمندر سے شبنم کے مساوی گیس فراہم کرتاہے اسی طرح دیگرکئی شعبے ہیں جوسفیدہاتھی بنکرسالانہ اربوں ڈالرزڈکارجاتے ہیں مگراسے سدھارنے کی بجائے ہم قرضوں پرقرضے حاصل کرکے شادیانے بجاتے ہیں آئی ایم ایف سے ہم قرض مانگتے ہیں وہ جب ہماری بجلی کی مدمیں ہونے والے نقصانات کاجائزہ لیتا ہے تو حکم صادرفرماتا ہے کہ بجلی کے خسارے پرقابوپاؤ ہم نے خسارے پرقابوپانے کایہ نارواطریقہ ڈھونڈھ لیاہے کہ قیمت بڑھادیتے ہیں قیمت بڑھنے سے ایک جانب غریب آدمی کی کمرٹوٹ جاتی ہے اس کابجٹ اتھل پتھل ہوجاتاہے بلکہ وہ بجلی چوری کی جانب راغب ہوتاہے اگرہم75برس میں صرف ایک بجلی کانظام درست طورپرچلانے کے قابل ہوتے،کوئی ایساسٹرکچربناتے جس سے بجلی چوری ممکن نہ ہو توہمیں دوتین ارب ڈالرزکیلئے آئی ایم ایف کے چوکھٹ پرسجدے نہ کرنے پڑتے۔ملکی معیشت کودرست خطوط پراستوارکرنے کیلئے ہم سب کواپنی اپنی ذمہ داریاں پوری کرنی ہونگی فضول درآمدات بندکرنی ہونگی اوربرآمدات بڑھانے پرتوجہ مرکوزکرنا ہوگی صنعتوں کوسہولیات دینی ہونگی،زراعت کے شعبے میں دورِجدیدکے تقاضوں سے ہم آہنگ ہوناہوگا، روایتی اورمتروک زراعت سے جدیدزراعت کی جانب آناہوگا،محنتی قوم بنناہوگا،ہرشہری کواپنی ذمہ داری خلوص نیت سے اداکرنی ہوگی، حکومتوں کوقابل عمل منصوبے بنانے ہونگے اورسب سے بڑھکرسیاسی قیادت کومیثاق معیشت جیسے معاہدے پرمتفق ہوناہوگا ملکی معیشت کی سدھارہمہ جہت اقدامات سے ممکن ہے۔