Voice of Khyber Pakhtunkhwa
Wednesday, May 15, 2024

خیبر پختونخوا کی سیاسی صورتحال

وصال محمد خان
نو وزرا، دومشیروں اورایک معاون خصوصی پرمشتمل نئی نگران کابینہ نے اپنی ذمے داریاں سنبھال لی ہیں ان میں چاروزرا مستعفی کابینہ سے بھی لئے گئے ہیں نگران کابینہ کے اجتماعی استعفوں کے بارے میں تاحال حکومت کی جانب سے کوئی توجیح پیش نہیں کی گئی اگرچہ مبصرین نے اپنے تئیں یہ فرض کرلیاکہ الیکشن کمیشن کی جانب سے وزیراعلیٰ کوبھیجے گئے خط کے نتیجے میں اجتماعی استعفوں کاعمل ممکن ہوامگر حکومت کی جانب سے کوئی مؤقف سامنے نہیں آیا اگرکابینہ سیاسی وابستگیوں کی بنیادپرالیکشن کمیشن خط کے نتیجے میں فارغ ہوئی ہے تونئی کابینہ میں پرانی کابینہ کے چار وزرادوبارہ کیونکرلئے گئے؟سابق کابینہ کے ایک وزیرنوشہرہ سے میاں فیروزجمال کاکاخیل ہیں جوواضح طورپرپیپلزپارٹی کیساتھ نہ صرف وابستگی رکھتے ہیں بلکہ گزشتہ عام انتخابات میں نوشہرہ سے قومی اسمبلی کاالیکشن بھی اسی پارٹی کے نشان پرلڑچکے ہیں جنہیں حیرت انگیزطورپردوبارہ وزارت اطلاعات کاقلمدان سونپاگیاہے۔ وزیراعلیٰ کے سمدھی اورپیپلزپارٹی کے صوبائی صدرکے کزن سیدمسعود شاہ کوبھی نئی کابینہ میں شامل کیاگیاہے جبکہ جسٹس (ر) ارشادقیصرجن کی سفارش پیپلزپارٹی کے ایک راہنمانے کی تھی انہیں بھی نئی کابینہ کاحصہ بنایاگیاہے پی ٹی آئی پارلیمنٹرین کے قریبی ذرائع کادعویٰ تھاکہ نئی کابینہ میں انکے نامزدکردہ کم ازکم پانچ وزراشامل ہونگے یہ دعویٰ سیاسی بیان قراردیاجارہاہے جس سے پارٹی یہ تاثردیناچاہتی تھی کہ مستقبل اس کاہے اورنگران حکومت اب اسکی مرضی سے چلے گی جولوگ نئی کابینہ میں شامل کئے گئے ہیں ان میں اکثریت سابق بیوروکریٹس کی ہے ان میں سے کوئی پرویزخٹک اور محمودخان کا حامی ہوسکتاہے۔ نظربظاہرتو ایساکوئی فردنظرنہیں آرہاجوپرویزخٹک کاحامی ہواگرایساہے توطشت از بام ہونے میں دیرنہیں لگے گی۔نئی کابینہ کوحلف برداری کے پانچ دن بعدمحکمے تفویض کئے جاچکے ہیں نگران حکومت کے تمام امورسست روی کے شکارہیں وزیراعلیٰ کی حلف برداری کے بعدکابینہ کی تشکیل میں بھی ہفتہ دس دن کاوقت لگاتھاجبکہ اجتماعی استعفوں کے بعدنئی کابینہ کی تشکیل میں دوہفتے کاوقت لگا ہفتہ دس دن تک کابینہ کی تشکیل پرغوروخوض جاری رہا تشکیل اورحلف برداری کے بعدمحکموں کی تفویض میں بھی پانچ دن لگ گئے بہرحال اب کابینہ تشکیل دی جاچکی ہے جونووزرا، دومشیروں اورایک معاون خصوصی پرمشتمل ہے اوراسکے اراکین کومحکمے بھی مل چکے ہیں کابینہ کی خوبی یہ ہے کہ اس میں اعلیٰ تعلیم یافتہ افرادشامل ہیں مگراب دیکھنایہ ہوگاکہ انکی اعلیٰ تعلیم سے ملک وقوم کوکوئی فیض پہنچتاہے یاپھریہ بھی روایتی کابینہ ثابت ہوتی ہے۔
بٹ گرام الائی میں چیئرلفٹ کے واقعے نے نہ صرف صوبے بلکہ پورے ملک کواپنی لپیٹ میں لئے رکھاواقعہ کے ظہورپذیرہوتے ہی خبر پورے ملک میں جنگل کے آگ کی طرح پھیل گئی خداکاشکرہے آٹھ افرادکی جان بچ گئی اس مشکل آپریشن یامشن امپاسیبل کوانجام دینے میں فوجی جوانوں، متعلقہ اداروں اورمقامی افرادنے بھرپورحصہ لیاپی ٹی آئی کے کارکن سوشل میڈیاپرپروپیگنڈے میں مگن رہے کہ فوج اس آپریشن میں ناکام رہی اور تمام افرادکومقامی لوگوں نے ریسکیوکیاحالانکہ یہ پروپیگنڈہ جھوٹ پرمبنی ہے بٹگرام کے علاقے آلائی پاشتومیں 600فٹ کی بلندی پرچیئرلفٹ کی رسیاں ٹوٹنے سے 8افرادفضامیں معلق ہوگئے اگربچی ہوئی ایک رسی بھی ٹوٹ جاتی توآٹھ افرادچھ سو فٹ کی بلندی سے نیچے گرجاتے پاک فوج، وزارت داخلہ سمیت متعلقہ محکموں اورمقامی افرادنے کمال حوصلے کا مظاہرہ کرتے ہوئے معلق افرادکی جانیں بچائیں مذکورہ واقعے کے بعدلفٹ کے آپریٹراورمالک کوگرفتارکرلیاگیاہے جبکہ دیگربہت سے علاقوں کی چیئر لفٹس بندکردی گئی ہیں ہمارے ہاں چونکہ یہ ایک روایت چلی آرہی ہے کہ کسی حادثے کے نتیجے میں بہت سے لوگوں کی شامت آجاتی ہے اوربلاسوچے سمجھے کئی کاروباربندکروا دئے جاتے ہیں حالیہ حادثے کے بعدبھی پہاڑی علاقوں میں چلنے والی تمام چیئریا ڈولی لفٹس بندکروائی گئی ہیں جس سے بعض علاقوں کاملک کے دیگرحصوں سے رابطہ منقطع ہوچکاہے جہاں آمدورفت کیلئے دریاؤں یاپہاڑی علاقوں میں رابطہ سڑکیں یاپل موجودنہیں وہاں پرائیویٹ طورپرلوگوں نے اس قسم کے لفٹس کاانتظام کررکھاہے جن سے عوام کوخاصی سہولت میسرآئی ہے اس قسم کے لفٹس نوشہرہ اورچارسدہ جیسے شہری علاقوں میں بھی موجودہیں جن سے لوگ دریاپارکرتے ہیں اگریہ سب غیرقانونی ہیں تو متعلقہ اداروں کوپہلے کیوں جاگ نہیں آئی؟یہ لفٹس بندکرنامسئلے کاحل نہیں بلکہ جہاں جہاں یہ موجودہیں حکومت انکے معائنے کااہتمام کرے، انہیں سہولیات دے، معیاربہترکرنے میں تعاون کرے اور عوامی تحفظ کے اقدامات یقینی بنائے جائیں ان لفٹس سے لاکھوں لوگوں کوسفری سہولت میسرہے انہیں بندکرنے سے انکے گوناگوں مسائل ومشکلات میں مزیداضافے کامکان ہے۔
سابق گورنرشاہ فرمان نے آئندہ انتخابات میں حصہ نہ لینے کااعلان کیاہے ان کاکہناتھاکہ وہ پی ٹی آئی چھوڑکرکہیں نہیں جا رہے بلکہ عام کارکنوں کیلئے جگہ خالی کررہے ہیں تاکہ اگلے انتخابات میں عام پارٹی کارکنوں کوموقع ملے ایک ویڈیوپیغام میں ان کاکہناتھا کہ وہ خودیاان کے خاندان کاکوئی فرداگلے انتخابات میں حصہ نہیں لے گا انہوں نے اپنے پارٹی فیلوزپربڑے بڑے الزامات لگائے اورکہا کہ پارٹی میں میرے خلاف سازشیں ہورہی ہیں دورانِ حکومت بہت سے لوگوں نے کرپشن کرکے پیسہ بنایاہے اوراپنے خاندانوں کوپرومو ٹ کیاہے، منی لاندرنگ میں ملوث رہے ہیں، ان لوگوں کے لندن میں دودوگھرہیں اب ان لوگوں کے احتساب کاوقت آچکاہے، انہیں چھوڑنانہیں، یہ میری آوازکودباناچاہتے ہیں کیونکہ وہ مجھ سے خوفزدہ ہیں۔شاہ فرمان اگرچہ قدآورسیاستدان تو نہیں مگر تحریک انصاف دور میں بہت سے لوگ اعلیٰ عہدوں تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے اس بندربانٹ میں گورنرجیسااہم عہدہ انکے ہاتھ بھی لگاگورنرکاعہدہ ویسے توعلامتی ہوتاہے مگرصوبے کے آئینی سربراہ کاعہدہ اتنابھی علامتی نہیں، انہیں دورانِ گورنری طالبان کوبھتہ دینے اورگورنرہاؤس فنڈزکے غلط استعما ل جیسے الزامات کاسامنارہاہے مگراب جبکہ وہ گورنرشپ سے مستعفی ہوچکے ہیں انہوں نے عہدہ بھی عمران خان حکومت کے خاتمے پربطورِ احتجاج چھوڑاتھا یعنی انہوں نے خودکوعمران خان کاسپاہی ثابت کیاتھاوہ چونکہ تحریک انصاف کے نظریاتی اوربانی کارکن سمجھے جاتے ہیں انہوں نے 2013 ء میں نظریاتی کارکن ہونے کے سبب وزارت اعلیٰ پراپناحق جتایاتھامگرہماپرویزخٹک کے سربیٹھی 2018ء میں جب کسی فرمانبردار وزیراعلیٰ کی تلاش تھی توبہت سی نظریں شاہ فرمان کاطواف کررہی تھیں کہ شائدپرویزخٹک کے وفاق میں جانے سے ان کی قسمت کھل جائے مگرپرویزخٹک نے اپنی جگہ محمودخان کونامزدکیاتب شاہ فرمان نے عمران خان سے گورنری مانگی جوانہوں نے عطافرمادی آج جبکہ چہارسو تحریک انصاف چھوڑنے کے چرچے ہیں شاہ فرمان کے بارے میں بھی افواہ گرم تھی کہ وہ عمران خان کوچھوڑ دیں گے مگر انہوں نے مذکورہ ویڈیوپیغام جاری کرکے ”سیخ اورکباب“ دونوں کوجلنے سے بچانے کی کوشش کی ہے۔البتہ انہوں نے اپنے پارٹی فیلوزپر جوالزامات لگائے ہیں یہ سنجیدہ معاملہ ہے آج تحریک انصاف کے اپنے لوگ کرپشن کے جوہوشرباانکشافات کررہے ہیں اس پردورانِ حکومت مجھ سمیت ان گنت صحافی جان جوکھوں میں ڈالکرقلم کشائی کرتے رہے ہیں تحریک انصاف کے 10سالہ دورِحکومت میں ان گنت لوگ حیرت انگیزطور پر فرش سے عرش تک پہنچ چکے ہیں جس کی تحقیقات ضروری ہیں گزشتہ دوحکومتوں کے احتساب کامطالبہ عوامی سطح پربھی زورپکڑرہا ہے۔

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket