عقیل یوسفزئی
پشاور میں وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور کی صدارت میں اپیکس کمیٹی کا اہم اجلاس منعقد ہوا جس میں صوبے کو درپیش سیکورٹی چیلنجز کا تفصیلی جائزہ لیا گیا اور متعدد اہم فیصلے کیے گئے ۔ اجلاس میں کور کمانڈر پشاور ، چیف سیکرٹری اور انسپکٹر جنرل پولیس سمیت اعلیٰ حکام نے شرکت کی ۔ جاری کردہ تفصیلات کے مطابق اجلاس میں صوبے کی سیکورٹی صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا گیا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں اور پاک فوج خوارج سے نمٹنے کےلئے ایک پیج پر رہ کر اقدامات کریں گی اور اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ قبائلی علاقوں اور جنوبی اضلاع میں دہشت گردی کی جاری لہر پر موثر اقدامات اور اداروں کی کوارڈینیشن سے قابو پانے کی ہر ممکن کوشش کی جائے گی اور پولیس کو لیڈنگ رول دیا جائے گا ۔ یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ سول اداروں خصوصاً کے پی پولیس ، سی ٹی ڈی اور دیگر کو درکار سہولیات دی جائے گی اور ان کو جدید ہتھیاروں اور بلٹ پروف گاڑیوں سے لیس کیا جائے گا ۔ اجلاس میں خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والے پاک فوج ، ایف سی اور پولیس کے شہید ہونے والے افسران اور جوانوں کے لواحقین کو خصوصی پیکیج دینے کا فیصلہ بھی کیا گیا ۔ فیصلے کے مطابق شہید ہونے والے ہر افسر کے لواحقین کو 20 لاکھ جبکہ نوجوانوں کے رشتہ داروں کو دس دس لاکھ روپے دیے جائیں گے ۔ اس موقع پر شرکاء کو بتایا گیا کہ خیبرپختونخوا میں شہید ہونے والے 178 اہلکاروں اور افسران کو پیکج دیا جائے گا ۔
اس موقع پر اپنے خطاب میں وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور نے کہا کہ پاک فوج حکومت کی درخواست پر مختلف علاقوں میں تعینات ہے اور اس بات کو یقینی بنانے کی حتی المقدور کوشش کر رہی ہے کہ بدامنی پر قابو پاتے ہوئے صوبے کے عوام کو تحفظ فراہم کیا جائے ۔ انہوں نے شرکاء کو یقین دہانی کرائی کہ صوبے کی حکومت دہشت گردوں کی بیخ کنی کے لیے متعلقہ اداروں کو سہولت فراہم کرے گی اور ان کی تمام ضروریات ترجیحی بنیادوں پر فراہم کی جائیں گی ۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان کو افغانستان سے امریکی انخلاء کے بعد بدترین قسم کی دہشتگردی اور بدامنی کا سامنا ہے اور اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے لازمی ہے کہ تمام اسٹیک ہولڈرز باہمی اختلافات سے بالاتر ہوکر ایک پیج پر آکر مشترکہ کوششیں جاری رکھیں ۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ صوبائی حکومت نہ صرف یہ کہ ان معاملات پر وفاقی حکومت سے کوئی مدد نہیں رہی بلکہ پاک فوج کے ساتھ بھی اس کے تعلقات کو مثالی قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ اس کشیدگی اور فاصلوں سے حملہ آور قوتیں بھرپور فایدہ اٹھاتی آرہی ہیں جبکہ یہ تاثر بھی زمینی حقائق کے تناظر میں بلا وجہ نہیں ہے کہ پالیسی میکنگ کے حوالے سے صوبے کی برس اقتدار پارٹی کی کالعدم گروپوں کے ساتھ ہمدردیاں ہیں ۔
ان رکاوٹوں کو فوری طور پر دور کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ صوبے کی تعمیر وترقی پر توجہ مرکوز کی جائے ۔ اس ضمن میں یہ بھی لازمی ہے کہ انڈرسٹینڈنگ بڑھانے کے لیے اپیکس کمیٹی کا ہر مہینے اجلاس بلایا جائے تاکہ اداروں کی ہم آہنگی ، مشاورت اور تعاون کو ممکن بنایا جائے ۔