54 لاکھ بچے موٹاپے کے خطرے میں، ماہرین نے فوری اقدامات کی ضرورت پر زور دے دیا۔ پاکستان میں بڑھتے ہوئے موٹاپے کے مسئلے پر قابو پانے اور اس کے سنگین اثرات سے آگاہی کے لیے اسلام آباد کے ایک مقامی ہوٹل میں دو روزہ ورکشاپ کا انعقاد کیا گیا۔ اس ورکشاپ کا اہتمام میکٹر انٹرنیشنل لمیٹڈ نے کیا، جس کا مقصد صحت مند طرزِ زندگی کو فروغ دینا اور موٹاپے کے علاج سے متعلق آگاہی عام کرنا تھا۔ ورکشاپ کے دوران ماہرین صحت نے اس بات پر شدید تشویش کا اظہار کیا کہ اگر بروقت اقدامات نہ کیے گئے تو پاکستان میں 2030 تک 54 لاکھ اسکول جانے والے بچے موٹاپے کا شکار ہو سکتے ہیں۔ ورلڈ اوبیسٹی فیڈریشن کی رپورٹ کے مطابق پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں زائد الوزن اور موٹاپے کے شکار افراد کی شرح تیزی سے بڑھ رہی ہے، اور ملک کی نصف آبادی اس مسئلے کی لپیٹ میں آ چکی ہے۔ورکشاپ کے پہلے دن ذیابیطس اور اینڈوکرائنولوجی کے شعبے میں ہونے والی ترقی اور موٹاپے کے سائنسی پہلوؤں پر سیشنز کا انعقاد کیا گیا۔
پروفیسر بلال بن یونس نے کہا کہ”موٹاپے کی روک تھام اور علاج ایک صحت مند معاشرے کی بنیاد ہے۔ پاکستان میں ذیابیطس سے پہلے کی حالت (Pre-diabetes) میں مبتلا افراد کی اکثریت موٹاپے کا شکار ہے، اور اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو یہ لوگ جلد ہی ذیابیطس جیسے خطرناک مرض میں مبتلا ہو سکتے ہیں۔”
ڈاکٹر عائلہ خان نے “موٹاپے کے علاج کے لیے مخصوص سیٹ اپس اور ان کے عالمی معیار” پر روشنی ڈالی، جبکہ عامر نوید، نائب صدر میکٹر انٹرنیشنل، نے ادارے کے وژن اور معاشرتی ذمہ داریوں پر تفصیلی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ موٹاپے کی روک تھام کے لیے مؤثر اقدامات اور شراکت داریاں نہایت ضروری ہیں۔
ورکشاپ کے اختتام پر میکٹر انٹرنیشنل لمیٹڈ نے مختلف اداروں کے ساتھ تعاون کو فروغ دینے کے لیے متعدد مفاہمتی یادداشتوں (MoUs) پر دستخط کیے، جن میں کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (CDA)، اولا ڈاک، مرہم، صحت کہانی اور لائنز کلب شامل ہیں۔ ان شراکت داریوں کے تحت ملک بھر میں موٹاپے سے متعلق آگاہی اور علاج کے منصوبے شروع کیے جائیں گے، جبکہ سی ڈی اے کی معاونت سے پمز، شفا اور دیگر سرکاری اسپتالوں میں باقاعدہ پروگرام متعارف کرائے جائیں گے۔”ماہرین نے حکومت اور معاشرتی اداروں سے مطالبہ کیا کہ وہ موٹاپے جیسے سنگین قومی مسئلے پر فوری توجہ دیں تاکہ ایک صحت مند، متحرک اور بیماریوں سے پاک نسل پروان چڑھ سکے۔