Voice of Khyber Pakhtunkhwa
Saturday, October 25, 2025

امن کے قیام کے لیے اہم اسٹیک ہولڈرز کی ذمہ داریاں

عقیل یوسفزئی
سیکیورٹی چیلنجز اور پاک افغان کشیدگی کے نئے منظر نامے کے باوجود خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومت اور وفاقی حکومت یا ریاست کے درمیان گزشتہ تین برسوں سے چلی آنیوالی کشیدگی یا تصادم میں کوئی کمی واقع نہیں ہوپارہی جس کے باعث خیبرپختونخوا کے مسائل اور انتظامی معاملات مزید پیچیدہ ہوگئے ہیں ۔ خیبرپختونخوا محض اس وجہ سے صوبائی کابینہ سے محروم ہے کہ پنجاب حکومت صوبے کے نئے وزیر اعلیٰ سہیل آفریدی کو ان کے لیڈر سے ملاقات کرنے نہیں دے رہی ۔ یہاں تک کہ جمعرات کے روز بھی ان سمیت سلمان اکرم راجہ اور جنید خان کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم کے باوجود بانی پی ٹی آئی سے ملنے نہیں دیا گیا ۔ اس موقع پر وزیر اعلیٰ نے پھر سے واضح کردیا کہ وہ اپنے قائد سے رہنمائی حاصل کیے بغیر کابینہ تشکیل نہیں دیں گے اور یہ کہ اگر جاری رویہ اس طرح جاری رہا تو وہ اپنے عوام سے رجوع کرنے کا یعنی احتجاج کا آپشن استعمال کریں گے ۔ دوسری جانب سنجیدہ تجزیہ کار اس بات پر تشویش اور حیرت کا اظہار کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ وزیر اعلیٰ کو بانی پی ٹی آئی سے ملنے کیوں نہیں دیا جارہا ؟
سینئر تجزیہ کار نجم سیٹھی کے مطابق یہ ایک نامناسب رویہ ہے ایک طرف بانی پی ٹی آئی کو بنی گالا منتقل کرنے کی پیشکش کی جارہی ہے تو دوسری جانب ایک حساس صوبے کے وزیر اعلیٰ کو ان سے ملنے نہیں دیا جارہا ۔ ان کے بقول لگ یہ رہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ عمران خان سے کوئی ایسی بات یا حرکت کروانی چاہتی ہے جس سے بانی کی کمزوری ظاہر ہو ۔
نامور اینکر پرسن بتول راجپوت نے اس ضمن میں اپنے تبصرے میں کہا ہے کہ ایک وفاقی وزیر کی جانب سے عمران خان کو بنی گالا منتقل کرنے کی پیشکش کی گئی ہے مگر اس قسم کی اطلاعات بھی زیر گردش ہیں کہ بانی پی ٹی آئی کو عوام اور لیڈر شپ سے دور رکھنے کے لیے بلوچستان کی مچھ جیل میں منتقل کیا جائے ۔
اس تمام تر کشیدگی پر تبصرہ کرتے ہوئے وزیر مملکت طلال چوہدری نے کہا ہے کہ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ ایک صوبے کے وزیر اعلیٰ اور دیگر پارٹی لیڈران کے پاس اتنا اختیار بھی نہیں ہے کہ وہ ایک فرد واحد کی اجازت کے بغیر کابینہ تشکیل دیں ۔
اسی طرح کے بعض اشارے ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری نے گزشتہ روز غلام اسحاق خان انسٹی ٹیوٹ ٹوپی میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے دیئے ہیں ۔ ان کے مطابق خیبر پختونخوا میں گورننس کی گیپس نے صوبے کی سیکیورٹی صورتحال کو پیچیدہ بنادیا ہے مگر صوبے کے حکمرانوں کو اس کے نتائج اور اثرات کا کوئی ادراک نہیں ہے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کی سیکورٹی فورسز اپنی صلاحیت اور قربانیوں کے ذریعے پاکستان خصوصاً خیبرپختونخوا اور بلوچستان کا نہ صرف دفاع کریں گی بلکہ ضرورت پڑنے پر ماضی کی طرح ہر اس جگہ کو نشانہ بنایا جائے گا جہاں سے دہشتگردی کی سہولت کاری ہورہی ہو۔
یہ تمام صورتحال اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ پولیٹیکل پوائنٹ اسکورنگ اور محاذ آرائی کا رویہ اور سلسلہ ترک کرکے کم از کم قومی سلامتی کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز اپنا اپنا کردار ادا کریں کیونکہ پاکستان کو بوجوہ اندرونی خطرات کے علاؤہ اپنی دونوں سرحدوں پر بھی کشیدگی کا سامنا ہے ۔
( 24 اکتوبر 2025 )

امن کے قیام کے لیے اہم اسٹیک ہولڈرز کی ذمہ داریاں

Shopping Basket