خیبرپختونخوا راؤنڈاَپ
صوبائی حکومت کو پے در پے سبکیوں کا سامنا ہے۔ صوبائی وزیر شکیل خان کی برطرفی یا استعفیٰ پر بحث و مباحثوں کا سلسلہ جاری تھا کہ اسی اثناء میں تحریک انصاف نے اسلام آباد میں جلسہ کرنے کا اعلان کیا۔ اور کچھ ایسا ویسا اعلان نہیں بلکہ دھوم دھڑکے کے ساتھ اعلانات کئے گئے۔ وزیر اعلیٰ گنڈاپور نے چیلنج دیا، نجانے کس کو دیا، بس دیا کہ اگر جلسہ نہ کر سکے تو سیاست چھوڑ دیں گے۔
پی ٹی آئی میں پراسرار واپسی کے بعد شیر افضل مروت نے بھی لمبی لمبی چھوڑتے ہوئے اپنے مخصوص انداز میں جلسہ منعقد نہ ہونے کی صورت میں چوڑیاں پہننے کی بڑھک لگائی۔ ان بڑھک نما اعلانات اور دعوؤں کے درمیان جلسہ اچانک منسوخ یا ملتوی ہوا۔ جس میں وزیر اعلیٰ کا خصوصی کردار سامنے آیا۔ انہوں نے رات کے آخری پہر جیل میں عمران خان سے ٹیلیفونک رابطہ کیا۔ اس کے بعد اعظم سواتی، جو پشاور میں تھے، نے صبح سات بجے اڈیالہ جیل میں بانی سے ملاقات کی۔
پشاور اور اڈیالہ کا سفر اڑھائی تین گھنٹے کا ہے یعنی سواتی صبح چار بجے کے قریب پشاور سے روانہ ہوئے۔ بعد ازاں چیئرمین پی ٹی آئی گوہر خان کے ہمراہ پریس کانفرنس میں انہوں نے جلسہ ملتوی کرنے کا اعلان کیا۔ اس اعلان کا پی ٹی آئی کارکنوں نے خاصا برا منایا اور سوشل میڈیا پر کارکن تحریک انصاف کی مرکزی اور صوبائی قیادت کو اسی زبان میں یاد کر رہے ہیں جس زبان میں وہ دوسری جماعتوں کے قائدین کو یاد کیا کرتے تھے۔
جو تربیت پی ٹی آئی کارکنوں کی ہوئی ہے اسی کے مطابق وہ سوشل میڈیا پر وزیر اعلیٰ، بیرسٹر گوہر، عمر ایوب، اسد قیصر اور علی محمد خان کو ننگی گالیاں دے رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کارکنوں کی اکثریت متذکرہ بالا افراد سے نالاں نظر آ رہی ہے۔ ان کے مطابق یہ لوگ عمران خان کی رہائی نہیں چاہتے کیونکہ اس صورت میں ان کی مناپلی کو خطرہ ہے۔ وزیر اعلیٰ، علی امین گنڈاپور کو دوہری مشکلات کا سامنا ہے۔
ایک جانب پارلیمانی پارٹی میں ان کے خلاف ایک گروپ سرگرم عمل ہے تو دوسری جانب عوام میں بھی ان کی ساکھ خراب ہوئی ہے۔ پی ٹی آئی کی گزشتہ دو ادوار میں بھی گروپ بندی رہی، پرویز خٹک اور محمود خان کو بھی اس حوالے سے مسائل کا سامنا رہتا تھا، گنڈاپور حکومت کو بھی یہی مسائل درپیش ہیں۔ سابق صوبائی وزیر شکیل خان نے اپنی وزارت کے معاملات میں مداخلت کی شکایت کی جس پر انہیں وزارت سے بر طرف کر دیا گیا۔
انہوں نے اسمبلی فلور پر تفصیلات بتانے کا اعلان کیا مگر اسپیکر نے حکومتی ایما پر اسمبلی اجلاس ملتوی کر دیا۔ پارٹی کے دیگر کئی ارکان بھی اسمبلی میں حکومت کے خلاف دل کا بھڑاس نکالتے رہتے ہیں۔ مزید کئی وزرا نجی محفلوں میں مداخلت کی شکایات کر رہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق وزیر اعلیٰ کے بھائی حکومتی معاملات میں مداخلت کر رہے ہیں جس سے وزرا نالاں ہیں۔
پارٹی کے اندر علی امین گنڈاپور کے خلاف محاذ بن رہا ہے۔ ان کی طرز حکمرانی اور ان کے بھائیوں کی جانب سے وزارتوں میں مداخلت سے حکومت اندرونی عدم استحکام کا شکار ہو چکی ہے۔ شکیل خان کی برطرفی معمولی واقعہ نہیں، انہوں نے تو خود کرپشن اور بدعنوانی کے خلاف آواز اٹھائی اور انہیں ہی قربانی کا بکرا بنا دیا گیا۔ گڈ گورننس نامی کمیٹی یا وزیر اعلیٰ کا یہ فیصلہ پی ٹی آئی کارکنوں اور ووٹرز سے ہضم نہیں ہو رہا۔
تین رکنی اس کمیٹی کی آئینی حیثیت پر سوال اٹھاتے ہوئے سابق وفاقی وزیر خواجہ محمد خان ہوتی نے ہائی کورٹ سے رجوع کیا ہے۔ ان کا مؤقف ہے کہ “گندم کی خریداری میں اربوں روپے کی کرپشن ہوئی ہے۔” صوبائی حکومت نے رواں سال 3.5 میٹرک ٹن گندم خریداری کا ہدف مقرر کیا تھا۔ خریداری میں کرپشن اور بدعنوانی کی شکایات سامنے آ چکی ہیں جس پر وزیر اعلیٰ نے تین رکنی انٹی کرپشن کمیٹی قائم کی۔
اس کمیٹی نے گندم کا معاملہ ایک طرف رکھ کر شکیل خان کو برطرف کیا۔ کمیٹی نے اب وزیر خوراک ظاہر شاہ طورو کو طلب کیا ہے مگر اس کمیٹی کی کوئی آئینی حیثیت نہیں، اس لئے اسے گندم اسکینڈل کی تحقیقات سے روکا جائے اور اس معاملے کی انکوائری نیب سے کروائی جائے۔
بظاہر تو یہی لگ رہا ہے کہ تین رکنی انٹی کرپشن یا گڈ گورننس کمیٹی علی امین گنڈاپور کی مدد کیلئے بنائی گئی ہے۔ کیونکہ شکیل خان نے کرپشن، دوسرے لفظوں میں وزیر اعلیٰ کے خلاف آواز اٹھائی، تو اسے وزارت سے اسی کمیٹی کی سفارش پر برطرف کیا گیا۔ جبکہ تحریک انصاف کے اندرونی حلقوں میں ایک گروہ علی امین گنڈاپور سے جان چھڑانے کا حامی ہے۔
ان کے متبادل کے طور پر ظاہر شاہ طورو کا نام لیا جا رہا ہے جنہیں کمیٹی نے گندم اسکینڈل میں طلب کیا ہے۔ ظاہر شاہ طورو پیپلز پارٹی کے دیرینہ کارکن تھے جنہیں پرویز خٹک نے پی ٹی آئی میں شامل کروایا۔ عمران خان حکومت کی رخصتی اور پارٹی سے راہنماؤں کی لاتعلقی کے دوران ظاہر شاہ طورو پارٹی کے ساتھ کھڑے رہے۔
جس کے انعام میں انہیں نہ صرف دوسری بار ٹکٹ سے نوازا گیا بلکہ علی امین حکومت میں انہیں وزیر خوراک کا قلمدان سونپا گیا۔ گندم کی خریداری میں ان پر کرپشن کے بے پناہ الزامات سامنے آئے مگر حکومت ان الزامات کو رد کرتی رہی۔ اب جبکہ ان کا نام متبادل وزیر اعلیٰ کے طور پر لیا جانے لگا تو انہیں گڈ گورننس کمیٹی نے طلب کیا ہے۔
گندم اسکینڈل واقعی اس حکومت کے ماتھے پر بدنما داغ ہے اور گندم خریداری میں بدعنوانی پر اے این پی، جے یو آئی، ن لیگ اور پیپلز پارٹی بھی آواز اٹھا چکی ہیں۔ حکومت کرپشن الزامات اور جلسہ منسوخی پر بیک وقت تنقید کی زد میں ہے اور یہ تنقید اپوزیشن سمیت پارٹی کے اندر سے بھی ہو رہی ہے۔
اے این پی کے نومنتخب صدرایمل ولی خان کوالیکشن کمیشن نے پارٹی صدرتسلیم کرلیا ہے ۔ایمل ولی قومی میڈیاپرمسلسل انٹرویوزدے رہے ہیں جس میں وہ تحریک انصاف کوکڑی تنقیدکانشانہ بنارہے ہیں ۔علی امین گنڈاپورکے بارے میں ان کاکہناہے کہ وہ کمپرومائزڈ ہیں اب انکے اپنے کارکن بھی ایمل ولی کی تائیدکررہے ہیں ۔ایمل ولی نے قومی میڈیاپراپنامؤقف پیش کرنے کاجوراستہ اپنایاہے اس سے انکی مقبولیت میں اضافہ ہورہاہے اب دیکھیں انکی یہ کاوشیں تحریک انصاف کیلئے کس حدتک مشکلات کاعث بنتی ہیں ۔مولانافضل الرحمان نے تحریک انصاف سے اتحادکوخارج ازامکان قراردیتے ہوئے تنہاجدوجہدکااعلان کیاہے اسکے ساتھ ہی پی ٹی آئی اورجے یوآئی کے درمیان اتحادکیلئے ہونے والے مذاکرات بھی ختم ہوگئے ہیں مگرپی ٹی آئی کے ایک اعلیٰ سطحی وفدنے ان سے ملاقات کرتے ہوئے پارلیمنٹ میں مشترکہ مؤقف اپنانے پرآمادہ کرلیاہے جس کے نتیجے میں جے یوآئی نے سینیٹ میں اپوزیشن کی بنچوں پربیٹھنے کافیصلہ کیاہے ۔مولانااورپی ٹی آئی کے درمیان اتحادکے امکانات خاصے کم ہوچکے ہیں کیونکہ مولاناکوایک زیرک سیاستدان سمجھاجاتاہے اگروہ عمران خان کیلئے اپنی توانائیاں صرف کرنے یااپناکندھاپیش کرنے پرآمادہ ہوں تویہ زیرک پن میں شمارنہیں ہوگابلکہ اسے اپنے پیروں پرکلہاڑی مارنے کے مترادف سمجھاجائیگا ۔ اسلئے مولاناتیل دیکھواورتیل کی دھاردیکھووالی پالیسی پرعمل پیرانظرآرہے ہیں۔
وصال محمد خان