خواجہ آصف کے الزامات اور علیمہ خان کا دورہ پشاور
وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے پی ٹی آئی کو سازشوں ، پاکستان مخالف لابنگز اور 9 مئی کے واقعات کا ذمہ دار قرار دینے کے علاوہ گولڈ سمتھ کمپین کا سرخیل بھی قرار دے دیا ہے اور کہا ہے کہ اس پاکستان مخالف پروپیگنڈا مہم کے لیے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے علاوہ عالمی میڈیا کے بعض حلقوں کو بھی فنڈنگ کے ذریعے استعمال کیا گیا اور یہ مہم ریاست مخالف سرگرمیوں کے زمرے میں آتا ہے ۔ انہوں نے خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور کو بزدار 2 کا نام دیکر کہا ہے کہ موصوف نہ صرف بدترین کرپشن میں ملوث ہیں بلکہ ان سے صوبے میں ان کی اپنی کابینہ اور پارٹی بھی سنبھالی نہیں جارہی ۔ انہوں نے کہا کہ پارٹی میں سابق وزیراعظم کی دو خواتین رشتہ داروں کی لڑائی جاری ہے اور اعظم سواتی ، گنڈاپور کے ذریعے ایک اور گیم کھیلنے کی تفصیلات نے بھی بہت کچھ بے نقاب کردیا ہے ۔
دوسری جانب عمران خان صاحب کی ہمشیرہ نے صوبائی حکومت اور پارٹی قیادت کے ” مشکوک کردار” پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے پشاور کا دورہ کیا جہاں انہوں نے عمران خان کی رہائی کے لیے کوششیں کرنے والے عہدے داروں اور کارکنوں سے ملاقاتیں کیں بلکہ یہ اعلان بھی کیا کہ وہ اپنے بھائی کی رہائی کی جدوجہد کو خود لیڈ کرے گی ۔
معتبر صحافتی حلقوں کی اطلاعات کے مطابق وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور اور صوبائی کابینہ کے بعض وزراء ، مشیروں نے علیمہ خان کے دورہ پشاور کی اطلاع پاکر ان سے بات کرنے اور ملاقات کرنے کی بہت کوشش کی مگر موصوفہ نے بات تک کرنے سے انکار کرتے ہوئے یہاں تک کہا کہ وہ ” غداروں” سے بات بھی نہیں کرنا چاہتی ۔ اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے وزیر اعلیٰ نے بعض ہم خیال پی ٹی آئی عہدے داروں سے علیمہ خان کی مخالفت اور اپنی حمایت میں بیانات بھی جاری کروائےجن میں دوسروں کے علاوہ سابق صوبائی وزیر شوکت یوسفزئی بھی شامل ہیں جن کو وزیر اعلیٰ نے پھر سے یقین دھانی کرائی ہے کہ انہیں مشیر یا معاون خصوصی بنایا جاسکتا ہے ۔ ذرایع کے مطابق بشریٰ بی بی اور علیمہ خان کے درمیان جاری کشیدگی نے خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومت کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور پارٹی دو بڑے گروپوں میں تقسیم ہوکر رہ گئی ہے ۔ یہی صورتحال صوبائی کابینہ کو بھی درپیش ہے جس نے کارکنوں کو نہ صرف پریشان کردیا ہے بلکہ وزیر اعلیٰ کے خلاف ان کے غصے میں مزید اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے ۔
ذرائع کے مطابق بعض حساس اداروں نے اس بات یا تاثر کا بھی سخت نوٹس لیا ہے کہ وزیر اعلیٰ اور بعض وزراء اپنے کرپشن پر پردہ ڈالنے کے لیے بعض اہم اداروں کا نام استعمال کرتے آرہے ہیں ۔ اس ضمن میں بعض وزراء اور بیوروکریٹس سے جواب طلبی کی اور ” سرزنش” کی اطلاعات بھی زیر گردش ہیں ۔
عقیل یوسفزئی