Voice of KP

خیبرپختونخوا راؤنڈاَپ

Wisal Muhammad Khan

وفاق میں 26ویں آئینی ترمیم کی منظوری پراے این پی ،جے یوآئی اور حکمران جماعتیں مسلم لیگ ن اورپیپلزپارٹی اپنی اپنی جگہ شاداں وفرحاں نظرآرہی ہیں۔اے این پی کے صدرایمل ولی خان نے ترمیم کیلئے بنائی گئی سپیشل کمیٹی میں پارٹی کی جانب سے اپنامسودہ پیش کیا تھا جس میں دیگرکے علاوہ صوبے کانام خیبرپختونخواکی بجائے پختونخوارکھنے کی شق بھی شامل تھی اپوزیشن لیڈرقومی اسمبلی عمرایوب نے اسکی مخالفت کی جس پرایمل ولی نے سینیٹ میں اپنی تقریرکے دوران برہمی کااظہارکیا ۔اے این پی کئی عشروں تک صوبے کانام پختونخوا ، پختو نستان یاافغانیہ رکھنے پرسیاست کرتی رہی۔اٹھارویں ترمیم میں اے این پی کے پاس وفاق میں پچیس (13قومی اسمبلی ارکان اور12 سینیٹرز ) ووٹ تھے جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پارٹی نہ صرف صوبے کانام تبدیل کرکے خیبرپختونخوارکھنے میں کامیاب رہی بلکہ صوبائی خود مختاری کی اکثرشقیں اے این پی ہی کی تجویزکردہ ہیں۔حالیہ ترامیم میں اے این پی نے صوبے کے نام سے خیبرکالاحقہ ہٹانے کی کوشش کی جواٹھارویں ترمیم کے وقت نوازشریف کی خواہش پر لگایاگیاتھااس وقت پیپلزپارٹی کی حکومت اورصدرزرداری کوبھی بہت سے کمپرو مائز ز کرنے پڑ ے تھے بالکل حالیہ ترامیم کی طرح طویل مشاورتیں ہوئی تھیں اوراپوزیشن کی تجاویز کواس کاحصہ بنادیاگیاتھا۔حالیہ ترامیم کے دوران اے این پی کے پاس صرف تین ووٹ تھے قومی اسمبلی میں پارٹی کاکوئی نمائندہ موجود نہیں کمزورپوزیشن کے سبب وہ اپنی تجاویز منوانے میں کامیاب نہ ہوسکے۔پی ٹی آئی نے صوبے کے نام سے خیبرہٹانے کی مخالفت کی جس کے ردعمل میں ایمل ولی نے سینیٹ تقریر میں انہیں خوب لتاڑا۔جے یوآئی کے ووٹرزاورسپورٹرز اپنے قائدکے کردارپرنازاں ہیں جبکہ پیپلزپارٹی اورمسلم لیگ ن کے راہنما اور کار کنوں کاخیال ہے کہ جسٹس منصورعلی شاہ کاراستہ روک کروفاقی حکومت نے اپنے گردمضبوط حفاظتی حصارقائم کیا ہے اوراب یقیناوفاقی حکومت اپنے پانچ سال پورے کریگی۔ صوبائی حکمران جماعت کواس حوالے سے ناکامی ہوئی ہے کہ وہ ہرحال میں جسٹس منصورعلی شاہ کوچیف بنوانے کی خواہاں تھی ۔ مولانافضل الرحمان نے ان پریہ احسان کیاہے کہ آئینی ترامیم سے وہ شقیں نکلوادیں جن میں فوجی تنصیبات پرحملہ کرنے والوں کاٹرائل فوجی عدالتوں میں چلانامقصودتھا۔مولانانے پی ٹی آئی پریہ احسان مستقبل کومدنظررکھتے ہوئے کیاہے ۔

صوبائی حکومت اوروزیراعلیٰ نے 26 ویں آئینی ترمیم کومستردکیاہے صوبائی ترجمان بیرسٹرسیف کااس حوالے سے کہناتھاکہ ‘‘سینیٹ میں خیبرپختونخواکی نمائندگی کے بغیرآئینی ترامیم پاس کی گئی ہیں ،ایک بڑے صوبے کی نمائندگی کے بغیر ترامیم کی منظوری سوالیہ نشان ہے،اس آئینی معمے کاحل آئینی بنچ کے پاس بھی نہیں ہوگا،نامکمل ایوان سے ترمیم پاس کرواناعجوبہ ہے ۔وزیر اعلیٰ ،علی امین گنڈاپورکاکہناتھاکہ اگر سنیئرترین جج کوچیف جسٹس نہیں بنایاگیااوربانی پی ٹی آئی کورہانہ کیاگیاتواسکے خلاف میدان میں نکلیں گے،دوبارہ اسلام آبادکارخ کریں گے ، ہم نے پوری منصوبہ بندی کرلی ہے،احتجاج کی یہ کال فائنل ہوگی اوراس سے حکومت کاتختہ الٹ کردم لینگے۔ وزیر اعلیٰ اورصوبائی حکومت کی ڈائرکشن اب بھی درست نہیں۔ پہلے چارباراسلام آباداورپنجاب پریلغارکرکے رسوائی کے سواکیاہاتھ آیاجواب دوبارہ فائنل کال دی جائیگی اوراس کال سے وفاقی حکومت کی رخصتی یقینی ہوگی؟صوبائی حکومت اگرعمران خان کی رہائی اوروفاقی حکومت کی رخصتی کواپنی ترجیحات سے نکال دے تواس سے صوبے اورعوام کابھلاہوگا۔یہ وفاقی حکومت کااختیارہے کہ وہ کس کوچیف جسٹس سپریم کورٹ بناتی ہے اورکس کوآئینی بنچ کاسربراہ،صوبائی حکومت کووہ بات یاکام کرنا چاہئے جواسکے دائرۂ اختیارمیں ہو۔اب تک جواحتجاج کئے گئے اسکے عوض صوبائی حکومت کے حصے میں کوئی نیک نامی نہیں آئی اسے اپنے کام اورحکومت پرتوجہ دینے کی ضرورت ہے ۔انکی لاپرواہی کے سبب پارٹی کاگراف دن بدن گررہاہے یہی وجہ ہے کہ حالیہ نائبرہوڈاورویلیج کونسلزکی خالی ہونے والی نشستوں پرضمنی انتخابات کے نتیجے میں حکمران جماعت کوئی نشست حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہوسکی ۔صوبے کی54نشستوں پرضمنی بلدیاتی انتخابات کاانعقادہواجس میں چالیس سے زائدارکان ٓازادکامیاب رہے جبکہ بقیہ نشستیں دیگرجماعتوں نے حاصل کیں بدقسمتی سے تحریک انصاف کے حصے میں کوئی نشست نہ آسکی جوپارٹی کی عوامی مقبولیت روبہ زوال ہونے کی علامت ہے ۔
دوسری جانب صوبائی حکومت نے مزیددومعاونین خصوصی کی تقرری کردی ہے۔ جس کے ساتھ وزیراعلیٰ کیلئے معاونین خصوصی کی تعداد 10 ہوگئی۔ گزشتہ ہفتے مشال یوسفزئی کی دوبارہ بطورمعاون خصوصی تقرری کی گئی ہے اس سے قبل وہ بہبودآبادی کیلئے وزیراعلیٰ کی مشیرتھیں انہیں کرپشن اوردیگرمتعدد الزامات کے سبب عہدے سے ہٹادیاگیاتھا۔مگرعمران خان سے جیل میں ملاقات کے بعدانکی قسمت نے دوبارہ یاوری کی اورانہیں ایک مرتبہ پھرکابینہ کاحصہ بنایاگیاہے ۔اٹھارویں ترمیم کے تحت کابینہ کاحجم اراکین اسمبلی کی مجموعی تعدادکا 11فیصد (خیبر پختونخواکیلئے بشمول وزیراعلیٰ 16) اورمشیروں کی تعداد5مقررہے تاہم معاونین خصوصی کی تعدادکاتعین نہیں ہوا۔ اسلئے وزیراعلیٰ حسب منشا معاونین خصوصی کاتقررکرنے میں آزادہیں۔ سابق گورنرشاہ فرمان نے گزشتہ ہفتے وزیراعلیٰ کے سنیئرمشیرکی حیثیت سے استعفیٰ دے دیاہے ۔ ان پرپارٹی کے اندرسے خاصی تنقیدہورہی تھی ایک توانہوں نے عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتمادکی کامیابی کے فوری بعدگورنرشپ سے استعفیٰ دیاتھادوسرے 9مئی واقعات کی مذمت کرتے ہوئے ایک ویڈیوبیان میں سیاست سے کنارہ کشی اختیارکی تھی مگر عمران خان کی جانب سے گڈگورننس کمیٹی میں شامل کرنے کے بعدانہیں وزیراعلیٰ کیلئے سنیئرمشیربرائے سیاسی امور کا عہدہ تفویض کیا گیاتھا۔

خیبرپختونخواسے تعلق رکھنے والے جسٹس یحییٰ آفریدی نے چیف جسٹس آف پاکستان کاعہدہ سنبھال لیاہے۔وہ سابقہ فاٹا( ضلع خیبر ) سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے پہلے جج ہیں ۔جسٹس یحییٰ آفریدی 23جنوری1965ء کوڈیرہ اسماعیل خان میں پیداہوئے ،آفریدی قبیلے کی شاخ آدم خیل سے تعلق رکھتے ہیں۔ابتدائی تعلیم ایچی سن کالج لاہورسے حاصل کی، پنجاب یونیورسٹی سے اکنامکس میں ماسٹرزکیا، کامن ویلتھ سکالرشپ ملنے پرجیسزکالج یونیورسٹی آف کیمبرج سے ایل ایل ایم کیا،پشاورسے بطوروکیل کیرئر کا آغازکیا،1990ء میں ہائیکورٹ،2004ء میں سپریم کورٹ کے وکیل بنے،2010ء میں پشاورہائیکورٹ کے ایڈیشنل جبکہ15۔ مارچ 2012ء کومستقل جج تعینات ہوئے،وہ 30۔دسمبر2016ء کوچیف جسٹس پشاورہائیکورٹ جبکہ 28جون 2018ء کوسپریم کورٹ کے جج بنے۔یحییٰ آفریدی جوڈیشل ایکٹیوازم کے خلاف رہے ہیں،2007ء میں وکلاء تحریک کاساتھ دیا۔خیبرپختونخواکے طول وعرض میں انکی تعیناتی پرمسرت کی لہردوڑچکی ہے ۔عوام کوجسٹس یحییٰ آفریدی سے ان گنت توقعات وابستہ ہیں اور وہ ان توقعات پرپورااترنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں ۔

وصال محمد خان

Exit mobile version