یہ بات خوش آئند ہے کہ 26 ویں آئینی ترمیم کے بعد نہ صرف یہ کہ پرو اور اینٹی اسٹیٹ قوتوں کے درمیان واضح لکیر کھینچی گئی ہے بلکہ سپریم کورٹ کے ایک مخصوص گروپ نے ذاتیات پر مشتمل محاذ آرائیوں کا جو سلسلہ شروع کر رکھا تھا نئے چیف جسٹس کی تعیناتی کے بعد وہ سلسلہ بھی ” اختتام پذیر ” ہوگیا ہے جس کے بعد توقع پیدا ہوگئی ہے کہ دو تین برسوں سے جاری ادارہ جاتی کشیدگی اور تصادم کا بھی خاتمہ ممکن ہوسکے گا۔
اس تمام عرصے کے دوران سپریم کورٹ کے بعض فیصلوں نے نہ صرف ریاستی رٹ کو بے معنی کرکے رکھ دیا بلکہ اس ادارے کی اپنی ساکھ کو بھی بری طرح متاثر کردیا جس کے باعث سیاسی قوتیں اور طاقتور اسٹیبلشمنٹ پہلی بار ایک پیج پر آکر متحرک ہوگئیں اور اس اتحاد کا نتیجہ 26 ویں آئینی ترمیم کی منظوری کی شکل میں نکل آیا۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ متنازعہ جج صاحبان جرآت کا مظاہرہ کرتے ہوئے نئے چیف جسٹس کی دوڑ سے استعفے دیکر الگ ہو جاتے مگر اپنی سیاسی ہمدردی بلکہ وابستگی کو سامنے رکھتے ہوئے انہوں نے یہ جرآت نہیں کی ۔ اب بھی بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ پارلیمانی کمیٹی کی جانب سے یحییٰ آفریدی کی تعیناتی کے بعد دو سینئر ججز استعفیٰ دے دیں گے تاہم عجیب صورتحال یہ بھی دیکھنے کو ملی کہ تحریک انصاف کے سینئر رہنما اور قانون دان حامد خان نے الٹا نامزد چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کو ” مشورہ” دیا ہے کہ وہ یہ عہدہ قبول کرنے سے معذرت کریں حالانکہ یہ مشورہ ان کی جانب سے اپنے ” حامی ” جج منصور علی شاہ کو دینا چاہیے تھا جو کہ بہت زیادہ متنازعہ ہوچکے ہیں۔
یہ بات خوش آئند ہے کہ شاندار کیریئر رکھنے والے یحییٰ آفریدی کو نیا چیف جسٹس نامزد کیا گیا ہے جن کی تربیت ایک والد کی حیثیت سے خیبر پختونخوا کے قابل فخر بیوروکریٹ عمر خان آفریدی نے کی ہے ۔ عمر آفریدی بعض دیگر عہدوں کے علاوہ خیبرپختونخوا کے چیف سیکرٹری بھی رہے ہیں اور ان کا کیریئر بہت شاندار رہا ہے ۔ یقینی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ ان کے صاحبزادے یحییٰ آفریدی اپنے والد کی نقش قدم پر چلتے ہوئے ایک بحران زدہ اور متنازعہ سپریم کورٹ کی ساکھ بحال کرنے کی کوشش پر خصوصی توجہ دیں گے ۔
وقت آگیا ہے کہ سیاسی بلیک میلنگ اور لابنگ کو ٹھوکر مارتے ہوئے سپریم کورٹ سے ” سیاست” کو باہر نکال دیا جائے اور جاری ڈرامہ بازیوں کا خاتمہ کردیا جائے۔
عقیل یوسفزئی