سینیٹ اور قومی اسمبلی نے دوتہائی اکثریت سے آئین ِپاکستان میں 26ویں ترمیم کی منظوری دے دی ہے۔ ترامیم میں دیگر بھی بہت سے معاملات کے حوالے سے قانون سازی شامل ہے مگر عدلیہ میں اصلاحات یا نئے قوانین پر کثرت سے بحث و مباحثوں کا سلسلہ جاری ہے۔ اور یہ تاثر عام ہے کہ ترامیم کا اصل مقصد جسٹس منصور علی شاہ کی بطور چیف جسٹس تقرری روکنا تھا۔
ترمیم کے تحت چیف جسٹس کی تقرری کا طریقہ کار بدل دیا گیا ہے۔ اس سے قبل سپریم کورٹ کے سنیئرترین جج ازخود چیف جسٹس بن جاتے تھے مگر اب بارہ رکنی ایک پارلیمانی کمیٹی تین سنیئرترین ججوں میں سے ایک کا انتخاب بطور چیف جسٹس کرے گی۔ ناقدین کے مطابق حکومت کو یہی ایک ترمیم مقصود تھی، باقی ترامیم خانہ پری کی خاطر عمل میں لائی گئی ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ متوقع چیف جسٹس تھے، مگر کچھ تو مخصوص نشستوں کے حوالے سے ان کے ایک فیصلے نے اور کچھ پی ٹی آئی نے حکومت کو ان کی راہ روکنے پر مجبور کردیا۔ مخصوص نشستوں کے کیس میں آٹھ رکنی بنچ نے پی ٹی آئی کے حق میں جو فیصلہ دیا ہے، اس کی نظیر شائد عدالتی تاریخ میں ملنا مشکل ہے۔ اس فیصلے سے ایک تو آئین کی پانچ شقوں کی خلاف ورزی عیاں ہے، جبکہ دوسری جانب فیصلے پر پی ٹی آئی کیلئے خودساختہ ریلیف تخلیق کرنے کے حوالے سے بھی تنقید کی جارہی ہے۔
بانی پی ٹی آئی نے خود کیلئے جسٹس منصور علی شاہ کا نرم گوشہ دیکھ کر ان کے حق میں مہم چلانا شروع کردی۔ سوشل میڈیا پر جھوٹ پھیلانے میں چونکہ پی ٹی آئی کو ملکہ حاصل ہے، اس لئے جسٹس منصور علی شاہ کے حوالے سے یہ بات یقین سے کہی جانے لگی کہ چیف جسٹس کا منصب سنبھالتے ہی وہ گزشتہ انتخابات کی تحقیقات کروائیں گے اور بقول پی ٹی آئی انتخابات میں چونکہ دھاندلی ہوئی ہے، اس لئے چیف جسٹس انتخابات کو کالعدم قرار دے کر نئے الیکشنز کا اعلان کریں گے جس کے نتیجے میں عمران خان وزیراعظم بن جائیں گے۔
گنڈاپور، گوہر خان، اسد قیصر وغیرہ پھولوں کے ہار لے کر اڈیالہ جیل کے باہر دست بستہ کھڑے ہوں گے۔ وہ عمران خان کو پھولوں سے لاد کر پانچ دس کروڑ لوگوں کے جلوس میں وزیراعظم ہاؤس لے جائیں گے جہاں ان کی حلف برداری ہوگی۔ اس خیالی پلاؤ یا نوٹنکی کی اس قدر پرچار کی گئی کہ حکومت کو بھی جان کے لالے پڑ گئے۔
اس سے قبل چونکہ کئی اچھی بھلی اور چلتی ہوئی حکومتیں عدلیہ کے فیصلوں سے فارغ ہوچکی ہیں، ان سابقہ تجربات کی روشنی میں حکومتی حلقوں نے خطرے کی بو محسوس کی اور اس کی روک تھام کیلئے سرگرمی سے کام کا آغاز کردیا گیا۔ مگر حکومت کے پاس آئین میں ترمیم کیلئے دوتہائی اکثریت موجود نہیں تھی، اس لئے اسے دیگر جماعتوں سے رابطے کرنے پڑے اور تعاون کے بدلے حکومت نے اپنے مسودے کی بجائے متفقہ مسودے پر اتفاق کرلیا۔
آئین میں حالیہ ترامیم پر اگرچہ تحریک انصاف اور ان کے حامی وکلا اعتراض کر رہے ہیں، ان کا اعتراض زیادہ سے زیادہ ترامیم کے طریقہء کار پر ہے، جس کیلئے بقول ان کے حکومت نے دھونس دھاندلی یا لالچ کے روایتی طریقے استعمال کئے۔ وکلا کا جو حلقہ مخالفت کر رہا ہے، اس کا سارا زور جسٹس منصور علی شاہ کے ساتھ ہونے والی زیادتی پر ہے۔
جن شقوں میں ترامیم کی گئی ہیں یا جو نئی شقیں شامل کی گئی ہیں، ان کی افادیت سے انکار نہیں کیا جا رہا۔ بس حکومتی طریقہ کار اور پی ٹی آئی کی جانب سے دھونس دھاندلی کی خودساختہ کہانیوں کے سبب کچھ اعتراض سامنے آرہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمان نے پی ٹی آئی چیئرمین گوہر خان کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ مسودے پر پی ٹی آئی کو بھی اتفاق ہے مگر وہ اپنی مجبوریوں کے سبب اسے ووٹ نہیں دے گی۔
آئینی بنچ، ججوں اور چیف جسٹس کی تعیناتی، سود کا خاتمہ اور ماحول کے حوالے سے کی گئی ترامیم میں اعتراض والی کوئی بات موجود ہی نہیں۔ پی ٹی آئی کو ان ترامیم کی حمایت کرنی چاہئے تھی، مگر وہ چونکہ سیاسی جماعت کی بجائے خود کو پریشر گروپ سمجھتی ہے، اس لئے اس سے کسی معقول رویے کی توقع عبث ہے۔
چیف جسٹس کی تقرری کا طریقہ کار بدلنا حکومت کی مجبوری تھی، مگر جو طریقہ کار اب بنایا گیا ہے اس سے اختلاف کی گنجائش بھی موجود نہیں۔ اس سے حکومت، پارلیمنٹ اور جمہوریت تینوں کا بھلا ہوا ہے، یعنی ایک تیر سے کئی شکار کئے گئے۔ حکومت وقت کے سر سے خطرہ ٹل گیا، پارلیمنٹ کو چیف جسٹس کی تقرری کا اختیار مل گیا، جبکہ جمہوریت کی بالادستی بھی قائم ہوئی جس کے مستقبل پر دوررس اثرات مرتب ہوں گے۔
پارلیمنٹ نے جو ترامیم کرنی تھیں وہ کر چکی ہے۔ اب یہ جس مقصد کیلئے عمل لایا گیا ہے، اس پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔ ترامیم کی افادیت سے انکار ممکن نہیں اور یہ حکومت کی ضرورت بھی تھی۔ حکومت، جمہوریت اور پارلیمنٹ کی ضرورت پوری ہوئی ہے، جس کا فائدہ بظاہر حکومت وقت کو ملا ہے اور ان ترامیم پر یہ واحد اعتراض ہے۔
تحریک انصاف سے حکومت کا یہ فائدہ برداشت نہیں ہو رہا۔ پی ٹی آئی قائدین نے اپنی نادانی کے سبب ایک پڑھے لکھے اور سلجھے ہوئے جج جسٹس منصور علی شاہ کو اعلیٰ منصب سے محروم کر دیا ہے۔ اگر پی ٹی آئی ان کے ساتھ خیالی قصے کہانیاں وابستہ نہ کرتی تو شائد انہیں یہ منصب حاصل کرنے میں دشواری پیش نہ آتی۔
مگر وہ پشتو کا ایک مقولہ ہے کہ ‘‘عقل دکم عقل نہ زدہ کیگی’’ یعنی نادان کی نادانیوں سے لوگ دانا بنتے ہیں۔ اگر تحریک انصاف جسٹس منصور علی شاہ کو اپنا نجات دہندہ بنا کر نہ پیش کرتی تو حکومت کو چیف جسٹس کی تقرری کا طریقہء کار تبدیل کرنے کا خیال ہی نہ آتا۔ اور یہ خیال جمہوریت کیلئے نیک شگون ہے۔
26ویں آئینی ترمیم حکومت کی ضرورت تھی، مگر ملک و قوم، جمہوریت اور پارلیمنٹ کیلئے اس کی افادیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔
وصال محمد خان