Voice of Khyber Pakhtunkhwa
Friday, October 10, 2025

خیبرپختونخوا کہ تجربہ گاہ ؟

عقیل یوسفزئی
جنگ زدہ صوبے خیبرپختونخوا کو برسرِ اقتدار پارٹی پی ٹی آئی نے تجربہ گاہ میں تبدیل کرکے رکھ دیا ہے ۔ نیا تجربہ ایک اور وزیر اعلیٰ کی تعیناتی کی صورت میں کیا جارہا ہے کیونکہ موجودہ وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور کو جیل میں بیٹھے ان کے لیڈر نے فارغ کردیا ہے ۔ علی امین گنڈا پور کے بقول” وزیر اعلیٰ کی پوزیشن عمران خان کی امانت تھی اور ان کے حکم کے مطابق ان کی امانت ان کو واپس کرکے آپنا استعفیٰ دے رہا ہوں ”
دوسری جانب پارٹی کے سیکرٹری جنرل سلمان اکرم راجہ نے اپنی بات چیت میں وزیر اعلیٰ کو ہٹانے کی وجہ بتاتے ہوئے کہا ہے کہ ان کو صوبے میں جاری دہشت گردی پر قابو نہ پانے اور آپریشنز نہ روکنے پر وزارت اعلیٰ کے منصب سے ہٹایا گیا ہے ۔ یہ بات بہت عجیب ہے کہ جس روز وزیر اعلیٰ کو ہٹاکر ایک فوج مخالف امیدوار سہیل آفریدی کو نیا چیف ایگزیکٹیو نامزد کیا گیا اسی روز کرم میں ایک حملے کے دوران لیفٹیننٹ کرنل اور میجر سمیت 11 سے زائد فوجی جوانوں کو شہید کیا گیا تھا ۔ اسی روز فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کی زیر صدارت کور کمانڈرز کانفرنس کا انعقاد ہوا جس میں جاری دہشت گردی اور ممکنہ بھارتی جارحیت سے متعلق واضح موقف اختیار کیا گیا ۔ اسی روز وزیر اعظم اور فیلڈ مارشل نے شہدائے کرم کی نمازِ جنازہ میں شرکت کی مگر پی ٹی آئی یا صوبائی حکومت نے حسب معمول شہداء کے لواحقین کے ساتھ رسمی تعزیت یا اظہار ہمدردی کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی ۔ اپر سے اس بیانیہ کی تشہیر جاری رہی کہ صوبے میں فوجی آپریشنز جاری ہیں حالانکہ پی ٹی آئی نہ صرف یہ کہ حملہ اور گروپوں کی حمایت کرتی آرہی ہے بلکہ بیڈ گورننس کے باعث صوبے میں ایسے گروپوں کے خلاف کارروائیوں سے بھی گریزاں ہے ۔
یہ بات سب کو معلوم ہے کہ وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور کو ہٹانے کی وجہ ان کا وہ بیان ہے جو کہ انہوں نے عمران خان کے ساتھ کی گئی ملاقات کے ان کی ہمشیرہ علیمہ خان کے خلاف دیا تھا ۔ یہ بات اور بھی مضحکہ خیز ہے کہ پی ٹی آئی نے اسی دوران بیان جاری کیا کہ اب عمران خان کا بیان علیمہ خان کی بجائے نورین خان نیازی جاری کرے گی ۔ مطلب یہ کہ پارٹی چیئرمین کو نہ تو وزیر اعلیٰ ہر اعتماد ہے نہ علیمہ خان پر اور نہ ہی وہ پارٹی کے دیگر قائدین پر اعتماد کرتے ہیں ۔ یہ ایک ” فرسٹریشن” کی عکاسی کرنے والی صورتحال ہے تاہم اس کا افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ اس تمام پراسیس میں جنگ زدہ خیبرپختونخوا کو تجربہ گاہ میں تبدیل کردیا گیا ہے ۔ بعض صحافتی حلقے اس پریکٹس کو عمران خان کی جانب سے آخری کارڈ کے استعمال کے طور پر دیکھ رہے ہیں کیونکہ انہوں نے ایک ایسے ناتجربہ کار بندے کو وزیر اعلیٰ نامزد کردیا ہے جو کہ ریاستی اداروں خصوصاً فوج کے خلاف ” شعلہ بیانی ” کی شہرت رکھتے ہیں ۔ ایسے نازک موقع پر ایسے شخص کی نامزدگی وفاقی حکومت اور عسکری قیادت کے ساتھ کیسے “ڈیل” کی جائے گی یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کیونکہ صوبے کو پہلے ہی سے بہت سے انتظامی مسائل کا سامنا ہے اور ایک پرو طالبان وزیر اعلیٰ کے آنے سے حالات مزید پیچیدہ ہوں گے ۔
بظاہر سہیل آفریدی کے وزیر اعلیٰ بننے میں کوئی رکاوٹ نظر نہیں آتی تاہم ایک بات بہت واضح ہے کہ اس ” ڈرامہ گردی ” کے بعد صوبے کی سیکیورٹی صورتحال اور انتظامی معاملات میں مزید ابتری واقع ہوگی اور اس کا خمیازہ پورے صوبے کو بھگتنا پڑے گا ۔

خیبرپختونخوا کہ تجربہ گاہ ؟

Shopping Basket