عقیل یوسفزئی
یہ بات قابل تشویش ہے کہ خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومت بہت سے تلخ واقعات کے باوجود وفاقی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ محاذ آرائیوں میں مصروف عمل ہیں جس کے باعث صوبے کے مفادات اور حقوق کو مسلسل نقصان پہنچتا چلا آرہا ہے۔ پی ٹی آئی پر اس جنگ زدہ اور پسماندہ صوبے کے عوام نے بوجوہ تین بار اعتماد کیا مگر تینوں صوبائی حکومتوں نے صوبے کے مفادات اور حقوق کو سرے سے اپنی ترجیحات ہی میں شامل نہیں کیا جس کا نتیجہ آج اس صورت میں سب کے سامنے ہے کہ اگر ایک طرف آدھے خیبرپختونخوا کو بدترین بدامنی اور دہشت گردی کا سامنا ہے تو دوسری جانب صوبے کی بیڈ گورننس نے انتظامی معاملات کو برباد کرکے رکھ دیا ہے۔ صوبے میں کوئی ایک بھی بڑا پراجیکٹ زیر تکمیل نہیں ہے۔ بے روزگاری اور مہنگائی کے باعث جرائم میں خطرناک حد تک اضافہ ہوگیا ہے اور عوام بدترین نوعیت کے مسائل سے دوچار ہیں مگر صوبائی حکومت اور برسرِ اقتدار پارٹی مسائل کے حل کی بجائے محاذ آرائیوں پر مشتمل پالیسیوں پر عمل پیرا ہیں۔
حال ہی میں جب اسلام آباد میں منرلز انویسٹمنٹ فورم کا ایونٹ منعقد ہوا تو وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور نے خصوصی دعوت کے باوجود اس میں شرکت نہیں کی۔ دوسرے دن انہوں نے ایک بیان کے ذریعے مجوزہ ” ماینز اینڈ منرلز ایکٹ” سے متعلق متنازعہ بیان دے مارا اور اس کی آڑ میں وفاقی حکومت کے ساتھ پولیٹیکل پوائنٹ اسکورنگ کا یکطرفہ بیانیہ دیکر اس کو مبہم اور متنازعہ بنانے کی پالیسی اختیار کی۔ حالت تو یہ بن گئی کہ خود کو ” غیر سیاسی خاتون ” کہلانے والی عمران خان کی ہمشیرہ علیمہ خان نے رسمی بیان میں اس مجوزہ ایکٹ کے معاملات کو اپنے بھائی کی رہائی سے مشروط کردیا جس کو کسی بھی لحاظ سے ایک مناسب طرزِ عمل قرار نہیں دیا جاسکتا۔
اس تمام صورتحال کے تناظر میں ضرورت اس بات کی ہے کہ صوبے کے عوام پر رحم کرتے ہوئے اس مینڈیٹ کا احترام کیا جائے جو کہ عوام نے تین مختلف انتخابات میں اس پارٹی کو دے رکھا ہے۔