Voice of Khyber Pakhtunkhwa
Sunday, April 13, 2025

خیبر پختونخوا میں پائیدار امن کے لیے قومی حکمت عملی ضروری ہے، آئی پی آر آئی سیمینار

اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹیٹیوٹ (آئی پی آر آئی) کے زیر اہتمام خیبر پختونخوا میں سلامتی، حکمرانی اور سماجی و سیاسی چیلنجز پر ایک اہم سیمینار منعقد ہوا، جس میں ممتاز ماہرین، سابق سرکاری افسران، صحافیوں، دانشوروں اور پالیسی سازوں نے شرکت کی۔

سیمینار کا افتتاح آئی پی آر آئی کے صدر، سفیر ڈاکٹر رضا محمد نے کیا۔ اپنے خطاب میں انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخوا کے پیچیدہ حالات ایک جامع اور مربوط قومی حکمت عملی کے متقاضی ہیں۔

تقریب کے مہمان خصوصی، گورنر خیبر پختونخوا فیصل کریم کنڈی نے کلیدی خطاب کرتے ہوئے کہا کہ خیبر پختونخوا اور سابقہ قبائلی علاقوں نے دہشت گردی کے خلاف بے مثال قربانیاں دیں اور ہمیشہ ریاست کے شانہ بشانہ کھڑے رہے۔ انہوں نے نیشنل ایکشن پلان پر مؤثر عملدرآمد کی ضرورت پر زور دیا۔

سیمینار کے پہلے سیشن کی صدارت آئی پی آر آئی کے ڈائریکٹر ریسرچ بریگیڈیئر (ر) ڈاکٹر راشد ولی جنجوعہ نے کی۔ مشیر وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا، ایڈووکیٹ محمد علی سیف نے اپنے خطاب میں مؤثر حکمرانی، سیاسی استحکام، قانون سازی اور مقامی حکومتوں کے نظام کو دہشت گردی کے خلاف اہم ہتھیار قرار دیا۔

سابق وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا، امیر حیدر خان ہوتی نے کہا کہ صوبے کے عوام نے ہمیشہ شدت پسندی کو مسترد کیا ہے، اور قومی سلامتی کی ذمہ داری وفاق اور صوبوں کو مشترکہ طور پر نبھانی چاہیے۔

یونیورسٹی آف ملاکنڈ کے شعبہ سیاسیات کے چیئرمین، ڈاکٹر مراد علی نے سکیورٹی اور ترقی کے باہمی تعلق پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ غربت، بے روزگاری اور محرومی شدت پسندی کو جنم دیتی ہیں۔ انہوں نے نوجوانوں کو مثبت سرگرمیوں میں شامل کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ سوال و جواب کے سیشن میں شرکا نے مقررین سے کھل کر سوالات کیے۔

سیمینار کے دوسرے سیشن میں پاکستان اور افغانستان کے تعلقات، دہشت گردی کے اثرات اور ریاست و میڈیا کے کردار کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔

سابق سفیر محمد ساجد نے کہا کہ ٹی ٹی پی کی حالیہ سرگرمیاں ملک کی سلامتی کے لیے سنگین خطرہ ہیں، اور اس کے مقابلے کے لیے افغانستان کے ساتھ مسلسل روابط اور قومی سلامتی پالیسی میں واضح حکمت عملی ناگزیر ہے۔

سینئر صحافی سلیم صافی نے طالبان کے بیانیے کی تشکیل میں ایف ایم ریڈیوز اور غیر ملکی میڈیا کے کردار کو اہم قرار دیا۔ سابق فاٹا سے تعلق رکھنے والے نوجوان رہنما عرفان نے شدت پسندی کے نفسیاتی، سماجی اور معاشی اثرات پر روشنی ڈالی۔

مولانا طیب قریشی نے کہا کہ شدت پسندی کے خلاف مؤثر بیانیہ صرف ریاستی سطح پر نہیں بلکہ مذہبی قیادت کی شراکت سے ہی ممکن ہے، اور دینی مدارس کو اس بیانیے کی قیادت کرنی چاہیے۔

انسپکٹر جنرل خیبر پختونخوا پولیس نے سکیورٹی صورتِ حال پر گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ پولیس کو قانونی، انتظامی اور عدالتی چیلنجز کے ساتھ ساتھ وسائل کی کمی کا سامنا ہے۔ انہوں نے نیشنل ایکشن پلان پر مکمل عملدرآمد، پولیس اصلاحات اور دینی مدارس کے ساتھ مؤثر شراکت داری کی ضرورت پر زور دیا۔

تمام مقررین نے اس بات پر اتفاق کیا کہ خیبر پختونخوا میں پائیدار امن اور ترقی کے لیے صرف بیانات کافی نہیں، بلکہ عملی اقدامات، مؤثر پالیسی سازی اور تمام فریقین کی مشترکہ شمولیت ضروری ہے۔

خیبر پختونخوا میں پائیدار امن کے لیے قومی حکمت عملی ضروری ہے، آئی پی آر آئی سیمینار

Shopping Basket