اس حقیقت کے باوجود کہ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات ماضی کے مقابلے میں کافی بہتر ہوئے ہیں۔ بعض افغان حلقے اور غیر ملکی عناصر ہر وقت اس تاک میں رہتے ہیں کے کسی بھی واقعے کو بہانہ بنا کر نہ صرف دونوں ممالک کے درمیان بدگمانیاں پیدا کی جائیں بلکہ عوام کو بھی ایک دوسرے سے دور کیا جاسکے۔
حال ہی میں جب کرونا وائرس کے مسئلے پر پاکستان نےبھارت، ایران اور افغانستان کے ساتھ اپنی سرحدیں بند کیں تو افغانستان میں اشیائے خوردونوش کی قلت پیدا ہوگئی کیونکہ اکثر اشیاء پاکستان سے وہاں جاتی ہیں عوام کی تکلیف اور افغان حکومت کی درخواست پر وزیراعظم عمران خان نے خود حکم دیا کہ سرحدیں کھول کر افغان عوام کی ضروریات پوری کی جائیں اور یوں کئی روز تک سپلائی کو ممکن بنایا گیا جبکہ فوڈ سپلائی بھی بحال کی گئی ۔ اس کے علاوہ وزیراعظم نے پاکستان میں قیام پذیر افغان باشندوں یا مہاجرین کی مدد کے لیے 20 ملین روپے بھی منظور کیے باوجود اسکے کہ پاکستان کو خود کرونا بحران کے باعث مالی مشکلات کا سامنا ہے ۔
اسی بحران کے دوران جب پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی کو دوبارہ منتخب ہونے کے لیے فون کیا تو مذاکراتی عمل، دوطرفہ تعلقات اور تجارت سمیت کرونا سے پیدا شدہ صورتحال پر بھی دونوں لیڈروں نے تبادلہ خیال کیا۔ اس بات چیت کے دوران اشرف غنی نے آرمی چیف سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ پاکستان اُن سینکڑوں ہزاروں افغان باشندوں کی واپسی کے لئے اقدامات کرے جوکہ بوجوہ پاکستان میں پھنسے ہوئے ہیں اور بارڈر سیل ہونے کے باعث افغانستان واپس نہیں جا سکتے ۔ وقت ضائع کئے بغیر حکومت نے اس مسئلہ کے حل کے لیے تین روز کے لیے طورخم اور چمن کی سرحدیں کھولنے کا اعلان کیا اور اس واپسی کو مؤثر بنانے کے لیے افغان سفارتخانے، قونصلیٹس اور افغان حکومت کو آگاہ بھی کیا گیا۔ کیونکہ ایسی ہی ایک درخواست افغان سفیر عاطف مشال نے بھی کی تھی اور افغان وزارت خارجہ بھی بار بار تعاون کی درخواستیں کر رہے تھے ۔ حکومت پاکستان کے اس غیر معمولی تعاون اور اقدام کے نتیجے میں جو ردعمل سامنے آیا اس نے نہ صرف پاکستان کو کافی مایوس کیا بلکہ بعض افغان حلقوں نے شیشوں کے گھروں میں بیٹھ کر منفی تبصرے کیے اور مخالفانہ بیانات جاری کیے۔ دوسری طرف پاکستانی افغانستان سے آمد کے اقدام کے منتظر رہے۔
طے پایا تھا کہ طورخم کے راستے ہزار سے تین ہزار تک افغان باشندے ایک آسان طریقہ کار اور اندراج کر کے اپنے وطن واپس جائیں گے جہاں تورخم کے اُس پار اُن کے لیے افغان حکام نے قرنطینہ سینٹر بھی قائم کیا تھا ۔ تاہم پہلے روز ہزاروں افراد پاٹک پر ہلہ بول کر نعرے لگاتے افغان سرزمین پر داخل ہوگئے اور انہوں نے کسی قسم کے اندراج یا چیکنگ کو خاطر میں لانے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ پاکستانی حکام نے اس کے باوجود ان کی تکلیف اور خواہش کو مدنظر رکھ کر ان کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی۔ یہی صورتحال چمن بارڈر پر بھی دیکھنے کو ملی جہاں سے تقریبا 10 ہزار افغانی واپس چلے گئے۔ اس پرستم یہ کہ بعض نام و نہاد عالمی میڈیا رپورٹس میں نہ صرف اس کومنفی رنگ دینے کی کوشش کی گئی بلکہ بعض اداروں اور افغان حلقوں نے یہاں تک کہنا شروع کیا کہ ان افراد کی آڑ میں پاکستان نے دہشت گرد افغانستان بھیجے ہوں گے حالانکہ تلخ حقائق تو یہ ہیں کہ افغانستان نے ایک پالیسی کے تحت اُن پاکستانی طالبان اور اُن کے کمانڈروں کو پناہ دے رکھی ہے جو کہ پاکستان میں بدترین دہشتگردی میں ملوث رہے ہیں اور بعض افغان حکام ایسا کرنے کا برملا اعتراف بھی کرتے ہیں۔ اسی ضمن میں پاکستان نے اسلم فاروقی کی حوالگی کا بھی حال ہی میں مطالبہ کیا ہے۔ اس سے قبل بھارتی میڈیا نے حقائق کے برعکس مہم چلائی کہ کابل میں فروری کے مہینے کے دوران سکھوں کے گوردوارے پر جو حملہ کیا گیا تھا اس میں پاکستان ملوث ہے حالانکہ اس مہم سے قبل بھارت کے معتبر میڈیا رپورٹس میں کھلے عام پوری تفصیلات کے ساتھ بھارت ہی سے تعلق رکھنے والے داعش خراسان، داعش برصغیر کے ان حملہ آوروں کی تفصیلات شائع کی گئی تھیں جو کہ گوردوارے کے حملے میں ملوث تھے۔
دیکھا جائے تو اس تمام مہم جوئی اور بے جا الزامات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ بعض قوتیں اب بھی اس کوشش میں ہیں کہ ایسے وقت میں افغانستان اور اس کی حکومت کو پاکستان کے خلاف استعمال کیا جائے جبکہ افغان قیام امن اور انٹر افغان ڈائیلاگ کیلئے افغان حکومت اور قائدین کے علاوہ امریکہ کو بھی پاکستان کی اشد ضرورت ہے اور پاکستان کا کردار عالمی سطح پر سراہا بھی جا رہا ہے۔