افواہوں ، سازشی نظریات ، غلط معلومات اور گمراہ کن بیانات کا سلسلہ کرونا سے پیداشدہ تشویشناک صورتحال کے باوجود بڑے اہتمام کے ساتھ جاری ہے۔ بدھ 15اپریل کےروز کرونا متاثرین کی جو سرکاری تفصیلات جاری کی گئی اس کے مطابق تمام تر حکومتی اقدامات اور دعوؤں کے برعکس پاکستان میں کرونا کے مریضوں کی تعداد چھ ہزار سے تجاوز کرگئی جبکہ اموات کی تعداد تقریبا 110 بتائی گئیں ۔کم آبادی کے باوجود خیبرپختونخوا کے متاثرین کی تعداد 993 بتائی گئی ،پنجاب میں 3000، سندھ میں 1500، بلوچستان میں ، 255 آزاد کشمیر میں 50، گلگت بلتستان 245 اور اسلام آباد میں یہ تعداد 135 ہوگئی۔ اس کے باوجود اب بھی متعدد حلقے اور لوگ ایسے ہیں جو کہ اس عالمی وباء کو مذاق سمجھ کر اپنے علاوہ دوسروں کی زندگیوں کو بھی خطرے میں ڈالنے کے رویے اور غیر حقیقی دلائل میں مصروف نظر آتے ہیں۔ منگل 14 اپریل کے روز جو معلومات سامنے آئے اس کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹے کے دوران صوبہ خیبرپختونخواہ میں کرونا کے 39 نئے کیسز رپورٹ ہوئے تھے جبکہ اسی عرصے کے دوران صوبے میں مزید 5 افراد جاں بحق ہوئے ۔ یوں صوبے میں کل اموات کی تعداد 41 تک پہنچ گئی جو کہ صوبے کی آبادی کے تناظر میں پورے ملک میں سب سے بڑی تعداد بنتی ہے اور اگر یہ تعداد اسی شرح تناسب سے بڑھتی گئی تو صورت حال پر قابو پانا مشکل ہو جائے گا اور ریاستی اداروں کے لئے بہت سی نئی مشکلات پیدا ہوں گی۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق اس دوران صرف پشاور میں 17 اموات ہوئیں، سوات میں یہ تعداد 5، مردان میں 4، کوہاٹ اور نوشہرہ میں 3،3 رہی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس شہر یعنی پشاورمیں سب سے زیادہ حفاظتی اقدامات کیے گئے وہاں اموات کی شرح سب سے زیادہ رہی۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ بعض لوگ جو کرو نا وباءکو مذاق یا نام و نہاد سازش سمجھ رہے ہیں ان کو یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ حالیہ وبا ءسے پاکستان کے اندر جہاں اموات کی شرح سب سے زیادہ خیبرپختونخوا میں رہی، وہاں اس سے پولیس افسران و اہلکاروں ، ڈاکٹر ز، سیاسی کارکنوں اور نرسز کی بھی سب سے زیادہ تعداد اسی صوبے میں متاثر ہوئی۔ جن میں مردان سے تعلق رکھنے والے ایم پی اے عبدالسلام آفریدی ،تین پولیس افسران اور میڈیکل سٹاف کے تقریبا 19 اہلکار شامل ہیں۔
ایک مستند رپورٹ کے مطابق پشاور میں 13 اپریل کو جن 102 مشکوک مریضوں کے ٹیسٹ کیے گئے ان میں 47 مثبت جبکہ 54 منفی آئے۔ یہ اس جانب اشارہ ہے کہ مثبت کیسز کی تعداد بوجوہ بڑھتی جا رہی ہے اور اگر ٹیسٹنگ کے نظام اور اس تعداد کو بڑھایا گیا تو متاثرین کی تعداد میں مزید اضافہ سامنے آئے گا۔ اسی روز مردان میں پانچ غیر ملکی باشندوں میں کرونا وائرس کی تصدیق ہوئی۔
حکومتی اداروں خصوصاً فورسز نے بڑے شہروں میں لاک ڈاؤن کو مؤثر بنانے میں کافی کامیابی حاصل کی اور لوگوں کو سمجھانے اور گھروں تک محدود رکھنے کی اپیلیں بھی کی جاتی رہی، تاہم دیہاتی علاقوں میں عوام نے احتیاطی تدابیر پر عمل نہیں کیا اور وہ اس عالمی وبا ءاور بحران کو مذاق سمجھ کر حکومتی ہدایات کو نظرانداز کرتے رہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق قانون نافذ کرنے والے اداروں نے صرف پشاور میں تقریباً 2600 شہریوں کے خلاف بد احتیاطی کے الزام یا ارتکاب پر کارروائی کی۔ اس کے باوجود نہ تو اموات کا سلسلہ رُکا اورنہ کیسز کی تعداد میں کمی واقع ہوئی۔
حکومت نے اس تمام تر بداحتیاطی اور عدم تعاون کے باوجود اعلان کیا کہ جزوی لاکھ ڈاؤن میں نرمی اور کمی لائی جائے گی، مگر اس کے باوجود مقررہ دن سے قبل ہی عوام نے مختلف حیلوں بہانوں سے جزوی لاکھ ڈان کی دھجیاں اڑا دیں اور بعض حلقے حکومت کی مخالفت میں تاجروں اور عوام کو حکومت کی ہدایات کے خلاف ورزی پر اُکساتے رہے ۔
اب تک عالمی سطح پر جو صورتحال سامنے آئی ہے اس کے مطابق صرف وہ شہر، علاقے ،ممالک اورعوام میں کیسز اور اموات کی شرح کم ہوئی ہے جنھوں نے احتیاطی تدابیر پر عمل کرکے لاک ڈاؤن کے دوران اپنی حکومتوں کے ساتھ تعاون کیا۔ اگر سہولیات اور وسائل کے ذریعے اس وبا ء پر قابو پانا ممکن ہوتا تو نیویارک جیسے جدید ترین شہر میں اموات اور کیسز کی تعداد سب سے زیادہ نہ ہوتی ، نہ ہی ترکی، برطانیہ ، فرانس اور اٹلی جیسے ترقی یافتہ ریاستوں میں موت کا رقص جاری رہتا۔ جن مسائل اور مشکلات کا پاکستان کے عوام کو سامنا ہے پوری دنیا کو وہ مسائل درپیش ہے۔ یہ کوئی مقامی وباءیا مسئلہ نہیں ہے جس سے نمٹنے کے لیے ہم فرسودہ طریقے،ٹوٹکےاور دوسرے روایتی ہتھکنڈے استعمال کریں۔
مزید کیسز اموات اور بحرانوں سے بچنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ عوام اس مسئلے کی شدت اور مزید تباہی کا احساس کرتے ہوئے اپنی ذمہ داریوں کا از سرِ نو تعین کریں اور احتیاطی تدابیر اختیار کرکے حکومتی اداروں کی ہدایات پر عمل کرنے سمیت ، اُن کے ساتھ تعاون بھی کرے۔