خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے حساس معاملات اور جاری صورتحال

گزشتہ 48 . 36  گھنٹوں کے دوران خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں دو تین اہم ایونٹس اور واقعات سامنے آئے جن پر ریاست ، اہل سیاست اور میڈیا کو مستقبل کے امکانات اور خدشات دونوں کے تناظر میں سنجیدگی کے ساتھ سوچنے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ وقت کا تقاضا یہ ہے کہ مزید کشیدگی ، پروپیگنڈا گردی اور تلخی کی بنیادیں رکھنے کی بجائے آگے بڑھا جائے۔

سی ایم ہاؤس پشاور میں وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور کی خصوصی دعوت پر وفاقی حکومت سمیت تمام پولیٹیکل اسٹیک ہولڈرز نے خلاف توقع سیاسی اختلافات سے بالاتر ہوکر صوبے کی سیکورٹی صورتحال اور آج سے جمرود میں شروع ہونے والے پی ٹی ایم کے جرگے کے انعقاد سے پیدا شدہ صورتحال پر ایک گرینڈ پولیٹیکل جرگے کا انعقاد کیا گیا جس میں گورنر اور وزیر داخلہ سمیت تمام اہم پارٹیوں کے قائدین اور پارلیمانی لیڈرز نے شرکت کی ۔ اس اہم اور مثبت ایونٹ کے دوران سب نے اس بات پر اتفاق کیا کہ پی ٹی ایم کو اس جرگے کی اجازت دی جائے اور تصادم کا رویہ ترک کیا جائے ۔ اس مقصد کی حصول کےلئے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور کو مذکورہ تنظیم سے مذاکرات کا اختیار دیا گیا ۔ وزیر اعلیٰ نے بھی وقت ضائع کئے بغیر تمام پارٹیوں کے پارلیمانی رہنماؤں پر مشتمل ایک نمایندہ وفد کے ہمراہ پی ٹی ایم کی قیادت سے مذاکرات کئے اور ان کو یقین دلایا کہ پاکستان کے آئین اور قانون کے مطابق وہ پرامن طریقے سے اس ایونٹ کا انعقاد کریں ۔ یوں اس تصادم کا خطرہ ٹل گیا جس کو ” یقینی” بنانے کا بعض عناصر نے اپنے اپنے ایجنڈے کے تحت” تہیہ ” کر رکھا تھا ۔ اس ایونٹ کی اجازت اس لیے دی گئی کہ تقریباً تمام پارٹیوں اور اسٹیک ہولڈرز نے یہ کہہ کر اس کی وکالت کی کہ یہ ایک روایتی جرگہ ہے جس میں سب شریک ہوکر اپنے اپنے موقف کا اظہار کرنا چاہتے ہیں اور یہ کہ اجازت نہ دینے سے کشیدگی میں غیر ضروری اضافے کا ایک ایسے وقت میں راستہ ہموار ہوگا جبکہ اہم غیر ملکی وفود پاکستان کے دورے پر ہیں اور کسی ممکنہ تصادم کی صورت میں منفی پیغام جائے گا۔

ریاست کا پی ٹی ایم پر پابندی لگانے کے تناظر میں اگلا قدم کیا ہوگا اس کا خاکہ اس ایونٹ کے بعد واضح ہوگا تاہم فی الحال یہ بات خوش آئند ہے کہ تمام اسٹیک ہولڈرز نے میچورٹی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تصادم کو ٹال دیا ہے ۔
سنجیدہ حلقوں کی جانب سے اس مثبت پیش رفت کا خیر مقدم جاری تھا کہ بلوچستان کی پشتون بیلٹ میں رات گئے ایک مسلح گروپ نے لورالائی کے قریب واقع دکی نامی علاقے میں بھاری ہتھیاروں سے کوئلے کے بعض کانوں پر حملے کیے جس کے نتیجے میں ابتدائی طور پر 19 کان کن شہید جبکہ 10 زخمی ہوگئے ۔ مسلح گروپ نے اس موقع پر دستی بم اور راکٹ بھی استعمال کیے جبکہ کانوں کی مشینری اور دیگر سازو سامان کو بھی جلادیا۔

جن 19 شہداء کی تفصیلات سامنے آئی ہیں وہ نسلی طور پر سب کے سب پشتون تھے ۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ شاید بلوچ بیلٹ کے بعد اب بعض شرپسند اور دہشت گرد گروپ بلوچستان کی پشتون بیلٹ کو بھی منظم طریقے سے ایسے حملوں کے ذریعے نشانہ بنانے نکل آئے ہیں کیونکہ جس منظم پلاننگ کے تحت پوری شدت کے ساتھ یہ ” واردات” کی گئی وہ روٹین کا طریقہ کار معلوم نہیں ہوتا ۔ اس تناظر میں بلاشبہ اس خدشے کا اظہار کیا جاسکتا ہے کہ عالمی اور علاقائی پراکسیز اور ان کے مقامی مزاحمتی گروپوں نے ایک نیا محاذ کھول دیا ہے ۔ جن پشتون علاقوں کے کان کن مزدوروں کو اس حملے میں نشانہ بنایا گیا ان علاقوں میں پشین ، قلعہ سیف اللہ ، کچلاک ، موسیٰ خیل ، مسلم باغ اور ژوب شامل ہیں ۔ ژوب اور موسی خیل پہلے ہی سے ٹی ٹی پی کے مسلسل حملوں کی لپیٹ میں رہنے والے علاقے ہیں تاہم اس سے قبل ان علاقوں میں زیادہ تر حملے فورسز پر کیے جاتے رہے یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ سویلین کو اس انداز میں ٹارگٹ کیا گیا ۔ اس لیے لازمی ہے کہ اس واقعے کو خطے کی جیو پولیٹیکل کے تناظر میں دیکھا جائے۔

یہ محض اتفاق نہیں ہے کہ جس رات یہ حملہ کیا گیا اس روز جہاں ایک طرف شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کی تیاری عروج پر تھی اور سعودی عرب کا ایک اعلیٰ سطحی وفد پاکستان پاکستان کے دورے پر اہم ملاقاتوں میں مصروف عمل رہا بلکہ ورلڈ بینک نے اعتراف کیا کہ پاکستان معاشی بحران سے نکل گیا ہے اور ساتھ میں یہ بھی کہ پاکستان میں مزید اقتصادی استحکام متوقع ہے۔

اسی روز چین سے متعلق ایک اہم خبر عالمی میڈیا میں یہ سامنے آئی کہ کراچی میں چینیوں پر ہونے والے حالیہ حملے کے باوجود چین نہ صرف پاکستان کے ساتھ بعض ممالک اور پراکسیز کی کوششوں کے باوجود مزید پراجیکٹس شروع کرنے والا ہے بلکہ وہ پاکستان کی سیکورٹی فورسز کے ساتھ اپنے اور پاکستان کے مشترکہ پراجیکٹس کی سیکورٹی کے ایک مربوط پلان کا بھی فیصلہ کرچکا ہے۔

ان تمام اقدامات اور حالیہ واقعات کو ایک دوسرے کے ساتھ نتھی کرکے دیکھنے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ یہ سب محض اتفاقیات یا مقامی سطح کی سرگرمیاں نہیں ہیں ایسے میں ضرورت اس بات کی ہے کہ انتہائی الرٹ ہوکر پاکستان خصوصاً خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے معاملات پر تمام امکانات اور خدشات کو سامنے رکھ کر نظر رکھی جائے۔

عقیل یوسفزئی

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket