عقیل یوسفزئی
خیبرپختونخوا کے ضلع باجوڑ میں ایک بم دھماکہ کے نتیجے میں جواں سال اسسٹنٹ کمشنر فیصل اسماعیل سمیت 5 افراد شہید ہوئے جن میں ایک راہگیر بھی شامل ہے جبکہ 15 سے زائد زخمی ہوئے جن کو پشاور اور باجوڑ میں طبی سہولیات دی جارہی ہیں ۔ سوات سے تعلق رکھنے والے اے سی فیصل اسماعیل تحصیلدار عبد الوکیل ایس آئی نور حکیم اور سپاہی زاہد کے ہمراہ اپنی گاڑی میں خار جارہے تھے کہ پہلے سے موٹر سائیکل پر نصب بم پھٹ گیا جس کے نتیجے میں وہ شہید ہوئے جبکہ راہگیر فضل منان بعد میں دم توڑ گئے۔
ابتداء میں کالعدم ٹی ٹی پی نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی تاہم رات گئے موقف اختیار کیا گیا کہ مقامی کمانڈرز سے بروقت رابطہ نہ ہونے کے باعث غلط فہمی کی بنیاد پر ذمہ داری قبول کی گئی تھی اور یہ کہ ٹی ٹی پی اس حملے میں ملوث نہیں ہے ۔ عین اسی دوران داعش خراسان نے رسمی طور پر اس حملے کی ذمہ داری قبول کی اور سرکاری حکام نے بھی اس بڑے واقعے کو داعش خراسان کی کارروائی قرار دیتے ہوئے سرچ آپریشن کا آغاز کیا۔
داعش خراسان مختلف علاقوں خصوصاً باجوڑ میں اس سے قبل بھی متعدد حملے کرتی رہی ہے اور انٹلیجنس ایجنسیوں نے بھی چند روز قبل ایک تھریٹ الرٹ جاری کردیا تھا کہ محرم الحرام کے دوران ٹی ٹی پی اور دیگر کے علاؤہ داعش خراسان اور القاعدہ برصغیر بھی کارروائیاں کرسکتی ہیں ۔ خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور اور انسپکٹر جنرل پولیس ذوالفقار حمید نے واقعے کی رپورٹس طلب کی ہیں تاہم افسوسناک امر یہ ہے کہ اس واقعے کے فوراً بعد جب اسلام آباد میں صوبے کی حکمران جماعت پی ٹی آئی کے لیڈروں کی پریس کانفرنس ہورہی تھی تو وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور سمیت کسی نے بھی اس واقعے سمیت خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کی جاری تشویش ناک لہر پر نہ تو کوئی بات کی اور نہ ہی کوئی موثر رسپانس دیا ۔ وزیر اعلیٰ نے 9 مئی اور دیگر مواقع اور ایشوز پر وہی پرانی اور رسمی باتیں کیں اور اپوزیشن کو دھمکیاں دیں جو اس بات کا ثبوت ہے کہ صوبائی حکومت کو سیکیورٹی کی بگڑتی صورتحال کا کوئی احساس اور ادراک نہیں ہے ۔ اس سے چند روز قبل کالعدم ٹی ٹی پی نے ماہ جون کے دوران کیے گئے حملوں کی تفصیلات جاری کیں جو کہ انتہائی تشویشناک سمجھی گئیں ۔ ان تفصیلات میں دعویٰ کیا گیا کہ جون کے مہینے میں 300 سے زائد حملے کیے گئے ہیں جس کے نتیجے میں بقول ٹی ٹی پی 500 سے زائد افراد کو نشانہ بنایا گیا ۔ لگ یہ رہا ہے کہ خیبرپختونخوا کو ایک بار پھر اس کے باوجود سنگین سیکیورٹی چیلنجر کا سامنا ہے کہ فورسز روزانہ کی بنیاد پر مختلف علاقوں میں آپریشن کرتی آرہی ہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ اس صورتحال پر تبادلہ خیالات کرنے اور ایک جامع حکمت عملی وضع کرنے کے لیے دیگر اقدامات کے علاؤہ صوبائی ایپکس کمیٹی کا اجلاس بلایا جائے اور اس اجلاس میں وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی کو بھی خصوصی طور پر مدعو کیا جائے۔
