جاری کشیدگی پر رہنماؤں اور ماہرین کی آراء

ملک میں مختلف مثبت اشاریوں اور اقدامات کے باوجود ایک مخصوص پارٹی کے منفی اور جارحانہ طرزِ عمل میں کوئی مثبت تبدیلی نظر نہیں آرہی اور اب اس پارٹی نے 9 نومبر کو ایک بار پھر صوابی میں اجتماع کا اعلان کردیا ہے ۔ اگر چہ مذکورہ پارٹی کو بدترین نوعیت کے اندورنی اختلافات کا سامنا ہے اور اس کی قیادت کے پاس ” کارڈز ” تقریباً ختم ہوچکے ہیں اس کے باوجود کشیدگی جاری ہے اور اس ٹینشن کو ہوا دینے میں پاکستان کی مین سٹریم میڈیا اور کی بورڈ واریئرز کا بنیادی ہاتھ ہے ۔ حکومت نے بعد از خرابی بسیار کے مصداق 1997 کی ٹیررسٹ ایکٹ میں ترامیم کا بل پیش کردیا ہے جس کے تحت دہشت گردی اور شرپسندی میں ملوث عناصر کے خلاف موثر کارروائی ممکن ہوسکے گی مگر بعض حلقوں کی آراء ہیں کہ جاری صورتحال کو دیکھتے ہوئے بعض عناصر کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل کرانے کا راستہ ہموار کرنا لازمی ہوگیا ہے اور سوشل میڈیا کا قبلہ بھی چین ، یو اے ای اور اب بھارت کی طرح سخت اقدامات کے ذریعے درست کرنا ناگزیر ہوگیا ہے۔

ملٹری کورٹس کی اے این پی کے مرکزی صدر سینیٹر ایمل ولی خان نے بھی اسی تناظر میں حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ جو لوگ قومی اداروں پر حملوں میں ملوث رہے ہیں ان کے ساتھ دہشت گردوں کی طرح سلوک ہونا چاہیے ۔ دوسری جانب خیبرپختونخوا کے گورنر فیصل کریم کنڈی نے ایک پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ خیبرپختونخوا بدترین دہشت گردی اور بد انتظامی کی لپیٹ میں ہے مگر وزیر اعلیٰ اور ان کی پارٹی کو کوئی احساس نہیں ہے اور وہ ایک بار پھر اسلام آباد پر چڑھائی کی پلاننگ کررہے ہیں حالانکہ یہ بات سب کو معلوم ہے کہ موصوف وکٹ کے دونوں جانب کھیلتے آرہے ہیں ۔ سابق وزیراعظم نواز شریف نے نیویارک میں گفتگو کرتے ہوئے سوال اٹھایا ہے کہ پی ٹی آئی عوام کو یہ بتائے کہ اس پارٹی نے گزشتہ دس بارہ برسوں کے دوران خیبرپختونخوا کے لیے کیا کچھ کیا ہے اور صوبے کے حالات اتنے خراب کیوں ہیں۔

سینئر صحافی فہمیدہ یوسفی کے مطابق خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں حالات دن بدن خراب ہوتے جارہے ہیں مگر خیبرپختونخوا کی حکومت عملاً ہمیں کچھ خاص اقدامات سے لاتعلق نظر آتی ہے اور یہ لوگ محاذ آرائی کی پالیسی پر عین اسی طرح گامزن ہیں جیسے کہ 2013 میں مشہور زمانہ دھرنے کے دوران تھے اگر چہ ان کو اس وقت بھی ہاتھ کچھ نہیں آیا تھا اور اب بھی ان کو اس طرزِ عمل کے ساتھ کچھ ملنے والا نہیں ہے ۔ تجزیہ کار عرفان خان کے بقول صوبے کو بدترین قسم کی دہشتگردی کے علاوہ بدانتظامی اور کرپشن کا سامنا ہے مگر حکومت کی دلچسپی کا عالم یہ ہے کہ ڈیرہ اسماعیل خان سے تعلق رکھنے والے چیف منسٹر ، گورنر اور انسپکٹر جنرل پولیس اپنے آبائی علاقے میں یا تو جانے کی ہمت نہیں رکھتے یا ان کو قبائلی اور جنوبی اضلاع کے معاملات سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔

سابق وزیر اجمل وزیر کے بقول موجودہ صوبائی حکومت نہ صرف یہ کہ قبائلی اضلاع کے مسائل سے بلکل لاتعلق ہے بلکہ وفاقی حکومت ، گورنر اور صوبے کی اپوزیشن کا کردار بھی محض بیانات تک محدود ہے جس کے باعث عوام میں شدید بے چینی پیدا ہوگئی ہے ۔ ان کے مطابق ان لوگوں سے اتنی تکلیف بھی نہیں ہوتی کہ جاری صورتحال کے تناظر میں ایپیکس کمیٹی کا اجلاس طلب کرلیا جائے اور معاملات کا اعلیٰ سطحی جایزہ لیا جائے ۔ اجمل وزیر کے مطابق اس تمام منظر نامے میں جتنی ذمہ داری صوبائی حکومت پر عائد ہوتی ہے اتنی ذمہ داری وفاقی حکومت پر بھی ڈالی جاسکتی ہے جس نے صوبے کو محض صوبائی حکومت کی رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔

دوسری جانب نامور تجزیہ کاروں عارف یوسفزئی اور فرزانہ علی نے فیک نیوز اور سوشل میڈیا کے غیر ذمہ دارانہ استعمال کو خطرناک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ عوام میں پائی جانے والی بے چینی اور جاری کشیدگی میں ان دو عوامل کا بھی بنیادی کردار ہے مگر افسوسناک امر یہ ہے کہ کوئی بھی اس صورتحال کا کوئی سنجیدہ نوٹس لیتا دکھائی نہیں دیتا اور پورا معاشرہ بدترین قسم کی افواہوں اور منفی پروپیگنڈا کی زد میں ہے۔

عقیل یوسفزئی

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket