عقیل یوسفزئی
یہ بات کافی تشویشناک ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات ایک بار پھر کراس بارڈر ٹیررازم کے معاملے پر نہ صرف یہ کہ بہت خراب ہوگئے ہیں بلکہ دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے خلاف کارروائیوں کا سلسلہ بھی شروع کردیا ہے ۔ گزشتہ شب افغانستان کی عبوری حکومت کی جانب سے پاکستان کے مختلف سرحدی علاقوں میں سیکیورٹی فورسز اور ان کے ٹھکانوں پر ہونے والے غیر متوقع حملوں نے نارمل تعلقات کے امکانات کو تقریباً ختم کرکے رکھ دیا ہے کیونکہ پاکستان کا رویہ مزید سخت اور غیر لچکدار ہوگیا ہے اور اسی تناظر میں پاکستان نے افغان حکومت کی جانب سے سیز فائر کی بار بار اعلانات کو مسترد کردیا ۔ آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری کردہ تفصیلات کے مطابق پاکستان نے جوابی کارروائیوں کے دوران جہاں 200 سے زائد طالبان کو ہلاک کردیا وہاں تقریباً 2 درجن افغان چیک پوائنٹس اور عسکری مراکز کو تباہ کرکے ان پر وقتی قبضہ بھی کیا ۔ یہ بھی کہا گیا کہ حملوں اور جھڑپوں کے نتیجے میں پاکستان کے 23 سیکیورٹی اہلکار شہید جبکہ 29 زخمی ہوئے ۔ بھارتی مداخلت اور افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کے ایشوز پر آئی ایس پی کے بیانات میں بار بار دہراتے ہوئے کہا گیا کہ افغان عبوری حکومت اپنی سرزمین کو ایسی سرگرمیوں سے روکنے میں ناکام رہی ہے اس لیے پاکستان اپنے دفاع کا حق استعمال کرتے ہوئے دہشتگردی کے خاتمے تک چین سے نہیں بیٹھے گا ۔
نامور تجزیہ کار سمیرا خان نے اس صورتحال پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا ہے کہ عوامی مینڈیٹ سے محروم قابض افغان حکومت کالعدم ٹی ٹی پی اور دیگر پاکستان مخالف قوتوں کی سرپرستی کرتی آرہی ہے اور اب نوبت پاکستان جیسے مضبوط ملک پر حملوں تک پہنچ گئی ہے ۔ ان کے بقول پاکستان کے ساتھ سفارتکاری اور رابطہ کاری کے آپشنز شاید ختم ہوگئے ہیں اس لیے اس نے جوابی کارروائیوں کا سلسلہ تیز کردیا ہے اور پاکستان کے مزید سخت اقدامات متوقع ہیں ۔ سینئر صحافی کاشف الدین سید کے مطابق یہ بات شاید محض ایک اتفاق نہ ہو کہ افغانستان نے یہ حملے ایسے وقت میں کیے جب افغان عبوری وزیر خارجہ امیر خان متقی بھارت کے دورے پر ہیں تاہم یہ خدشہ بھی قابل غور ہے کہ شاید افغان حکومت یا نظام میں موجود بعض عناصر نے کشیدگی بڑھانے کے لیے یہ اقدام اٹھایا ہو تاکہ بھارت کو خوش کیا جائے اور علاقائی چیلنجز میں اضافے کا راستہ ہموار کیا جائے ۔
قبائلی صحافی عمر وزیر نے اس ضمن میں اپنے تبصرے میں کہا کہ حملوں کے دوران خیبرپختونخوا کے تقریباً نصف درجن قبائلی علاقوں کو نشانہ بنایا گیا جس کی وجہ یہ بتائی گئی کہ یہ پاکستان کے ان مبینہ فضائی حملوں کا جواب ہے جو جو کہ چند روز قبل افغانستان میں کیے گئے تاہم پاکستان کے سخت فوجی ردعمل نے معاملے کو خطرناک بنادیا ۔ ان کے مطابق افغانستان کی غیر مقبول حکومت نے اپنے عوام کے وقتی تسلی کے لیے پاکستان مخالف کارڈ استعمال کرنے کی کوشش کی ہے تاہم یہ مہم جوئی بہت مہنگی پڑسکتی ہے کیونکہ پاکستان اور افغانستان کی دفاعی صلاحیتوں کا سرے سے کوئی موازنہ ہی نہیں کیا جاسکتا ۔
