پاکستان کی تاریخ میں بہت کم مواقعے آئے ہیں کہ سالانہ بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ نہ کیا گیا ہو، اسی لئے جب بجٹ 2020-21 میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ نہ کیا گیا تو ایک جانب سرکاری ملازمین میں بے چینی پیدا ہوئی تو دوسری جانب یہ ملکی معاشی خراب صورتحال کا آئینہ دار سمجھا گیا۔ یوں تو گزشتہ کئی ادوار حکومتوں میں سرکاری ملازمین کے سروس سٹرکچر اور پنشن کے طریقہ کار پر دبے لفظوں باتیں ہوتی رہیں لیکن ووٹ بنک اور انتخابات کے ڈر سے حکومت کوئی فیصلہ نہیں کر پائی، تاہم پی ٹی آئی حکومت اس مسئلے کو سنجیدگی سے لے رہی ہے اور ایک جانب سالانا بجٹ میں تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ نہ کیا تو دوسری جانب سرکاری ملازمت اور پنشن اصلاحات پر عملی اقدامات کا آغاز کیا۔ اس سلسلے میں حکومت نے تمام وزارتوں کو ہدایت کی ہے کہ گریڈ ایک سے 19 کے ملازمین کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے لیے تشکیل دی گئی کمیٹیوں کے اجلاس بلائے جائیں جس کے نتیجے میں کارکردگی نہ دکھانے والے ملازمین کو 60 برس کی عمر تک پہنچنے سے قبل ہی ریٹائر کیا جاسکتا ہے۔ سرکاری مراسلے کے ذریعے تمام وزارتوں اور محکموں کو ہدایت کی گئی ہے کہ ’20 سال سروس کرنے والے تمام ملازمین جن کی فہرستیں تیار ہیں، کے لئے حکومت نے ’سول سرونٹ (ڈائریکٹ ریٹائرمنٹ فرام سروس) رولز 2020‘ نوٹیفائیڈ کردیے ہیں جس کے تحت ملازمین کو ان کی کارکردگی کی بنیاد پر 60 برس کی عمر تک پہنچنے سے قبل ریٹائرڈ کیا جاسکتا ہے۔
حالیہ آفس میمورنڈم میں کابینہ سیکریٹریٹ کے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے تمام وزارتوں، محکموں اور شعبہ جات کو گریڈ17 سے 19 اور سکیل ایک سے 16 تک کے سول سرونٹس کی ریٹائرمنٹ کمیٹیوں کے اجلاس کی تاریخیں 31 جولائی تک بتانے کی ہدایت کی ہے۔ وزارتوں اور محکموں نے سول سرونٹس کے کیسز کو دیکھنے کے لیے 2 علیحدہ ریٹائرمنٹ کمیٹی تشکیل دے دی ہیں۔ ان میں سے ایک کمیٹی کی سربراہی متعلقہ وزارت کے گریڈ 21 کے ایڈیشنل سیکریٹری کے پاس ہے جبکہ اسٹیبشلمنٹ ڈویژن، محکمہ قانون اور خزانہ کے گریڈ 20 کے افسران اس کمیٹی میں شامل ہوں گے جو گریڈ 17 سے 19 کے افسران کی کارکردگی کا جائزہ لیں گے۔ جس میں ملازمت میں 60 سال کی عمر تک پہنچنے کی شرط کو ختم کردیا گیا ہے اور ملازمین اور افسران کو ان کی کارکردگی کی بنیاد پر 60 سال کی عمر ہونے سے پہلے ریٹائر کرنے کے بارے میں فیصلہ کریں گے۔
ہر وزارت میں بنائی گئی دوسری کمیٹی کی سربراہی گریڈ 20 کے سینئر جوائنٹ سیکریٹری یا جوائنٹ سیکریٹری کریں گے اور اس میں اسٹیبلشمنٹ ڈویژن، محکمہ قانون، خزانہ اور متعلقہ محکمے کے ہیومن ریسورس کے گریڈ 19 کے افسران شامل ہیں جو گریڈ 16 سے کم کے ملازمین کی کارکردگی جانچیں گے۔ سول سرونٹ جس کے خلاف متعلقہ اتھارٹی کی جانب سے ریٹائرمنٹ کا فیصلہ دیا جائے گا وہ اتھارٹی کی ہدایات کے مطابق پینشن اور ریٹائرمنٹ کی دیگر مراعات سے مستفید ہوسکے گا۔ اس کے علاوہ جس سول سرونٹ کے خلاف ریٹائر کرنے کا حکم دیا جائے گا اسے سول سرونٹس (اپیل) رولز 1977 کے تحت اپیل کرنے کا بھی حق حاصل ہوگا. ایک جانب صوبائی اور وفاقی وزراء نجی محفلوں اور سرکاری اجلاسوں میں پنشن نظام میں اصلاحات کی شدید حمایت کر رہے ہیں تو دوسری جانب اپوزیشن جماعتوں کی تنقید سے بچنے کے لیے بغض حکومتی وزراء اس پیش رفت سے مکمل لاعلمی کا اظہار کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ وفاقی وزیر علی محمد خان نے سینٹ کے فلور پر سرکاری ملازمت و پنشن اصلاحات کو رد کیا تو دوسری جانب وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز نے بھی اسے پروپیگنڈا قرار دیا ہے، لیکن معاشی تجزیہ کار اور صحافی تصدیق کر رہے ہیں کہ پنشن کی بڑھتی ہوئی اعدادوشمار سے حکومت میں شدید بے چینی پائی جاتی ہےاور پنشن اصلاحات کے کئی آپشنز پر غور کر رہی ہے۔
معاشی تجزیہ کار ڈاکٹر فرخ سلیم کے مطابق بجٹ میں ہرگزرتے دن کے ساتھ پنشن کا بوجھ بڑھتا جارہاہے اور اگر چاروں صوبوں کا دیکھا جائے تو تقریباً پندرہ سو ارب روپے پنشن میں دیے جاتے ہیں۔ جب پنشن میں اتنی رقم دی جائے گی تو ایک وقت ایسا آئے گا کہ بجٹ کا ایک بڑا حصہ پنشن کی ادائیگی کے لیے درکار ہوگا اور یہ سسٹم فیل ہوجائے گا۔
خیبرپختونخوا کے وزیر خزانہ تیمور سلیم جھگڑا کے مطابق اگر ملک کو معاشی طور پربچانا ہے تو پھر پنشن کیلئے قابل عمل سسٹم لانا ہوگا، بہ صورت دیگر ایسا وقت آئے گا کہ بجٹ میں پنشن کے لئے پیسے کم پڑ جائیں گے اور ہم اس صورتحال کے متحمل نہیں ہو سکتے۔
حکومت کو اپنے معروضی حالات کے مطابق ہی فیصلے کرنے ہوں گے اور معیشت کے استحکام و ترقی کے لئے غیر معروف اقدامات اٹھانے ہوں گے ورنہ اگر سیاسی پوائنٹ اسکورنگ اور ووٹ بنک کی خاطر کمزور فیصلے کئے گئے تو یہ ملکی معیشت کے لئے نقصان دہ ثابت ہوں گی۔