وزیراعظم کا دورہ پشاور اور سیکورٹی کی صورتحال

وزیراعظم کا دورہ پشاور اور سیکورٹی کی صورتحال
عقیل یوسفزئی
نگران وزیراعظم انوارالحق نے جمعہ کے روز پشاور کا پہلا رسمی دورہ کیا جہاں متعلقہ اعلیٰ حکام نے ان کو خیبر پختون خوا کے سیکورٹی حالات، معاشی مسائل اور دیگر ایشوز پر بریفنگز دیں جبکہ وزیر اعلیٰ اعظم خان اور گورنر حاجی غلام علی نے ان سے الگ الگ ملاقاتیں بھی کیں. بعد ازاں وزیراعظم نے دونوں کی موجودگی میں ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی حکومت کو پختون خوا کے مسائل اور مشکلات کا پورا ادراک ہے اور اس صوبے کے عوام اور سیکورٹی فورسز نے دہشت گردی کی حالیہ لہر کے دوران جس ہمت اور پلاننگ کا مظاہرہ کرکے قربانیاں دینے کی اپنی روایت کو جاری رکھا پوری ریاست اور قوم اس پر ان کو خراج تحسین اور خراج عقیدت پیش کرتی ہے.
وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان بالخصوص خیبر پختون خوا کی پوری ایک نسل دہشت گردی کا سامنا کرتی آئی ہے اور اسی کا نتیجہ ہے کہ پاکستان کو متعدد چیلنجز سے دوچار ہونا پڑا ہے. انہوں نے مزید بتایا کہ پختون خوا پولیس، سی ٹی ڈی، ایف سی اور دیگر متعلقہ اداروں کی ضروریات کا نہ صرف یہ کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو پورا احساس ہے بلکہ سہولیات کی فراہمی کے ایک مربوط حکمت عملی پر تیزی سے کام جاری ہے اور سابق فاٹا کے مختلف اضلاع کے معلات ڈیل کرنے کے لیے ایک مکینزم بنانے کا کام بھی انڈر پراسیس ہے.
اس میں کوئی شک نہیں کہ پختون خوا کے عوام ،سیاسی قوتوں اور ہماری تمام فورسز نے فرنٹ لائن خطے کے باعث پاکستان کی سلامتی کے لئے اجتماعی طور پر بہت زیادہ قربانیاں دی ہیں اور قربانی دینے کا یہ سلسلہ جاری ہے تاہم اس تلخ حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ہمارے سول حکمرانوں اور اداروں نے اس جنگ ذدہ صوبے کے مسائل کے حل پر وہ توجہ نہیں دی جو کہ درپیش مسائل کے تناظر میں دینی چاہیے تھی. اس کا بڑا ثبوت یہ ہے کہ گزشتہ صوبائی حکومت نے پختون خوا بالخصوص قبائلی اضلاع کی سیکورٹی کے لئے وفاقی حکومت کی جانب سے ملنے والے تقریباً 400 ارب روپے ان علاقوں اور سیکورٹی اداروں پر خرچ کرنے کی بجائے دوسرے معاملات اور ترقیاتی منصوبوں پر خرچ کئے. اب تک کی ریاستی پالیسیوں یا اقدامات کا ایک ناقدانہ جایزہ لیا جائے تو پاک فوج ہی نے بعض حلقوں کے یکطرفہ پروپیگنڈا کے برعکس قبائلی علاقوں کے معاملات میں بنیادی اور عملی کردار ادا کیا ہے حالانکہ یہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ان ایشوز اور مسائل کو حل کریں.
قبائلی علاقوں میں نہ صرف یہ کہ گورننس کے مسائل کافی زیادہ ہیں بلکہ ماضی کے تلخ واقعات اور پیچیدہ معاملات کے علاوہ پراکسیز کی سرگرمیوں کے باعث بھی پاکستانی ریاست کو منفی پروپیگنڈا اور مہم جوئی کا بھی سامنا ہے. ایسے میں لازمی ہے کہ امن کے قیام اور تعمیر نو کے اقدامات کے علاوہ لوگوں کی ذہن سازی پر توجہ دی جائے اور اس بات کو ممکن بنایا جائے کہ عوام ہر سطح پر ریاست کے ساتھ تعاون کریں. مشاہدے میں آیا ہے کہ گزشتہ دو ہفتوں سے صوبے میں حملوں کی تعداد میں غیر معمولی کمی واقع ہوئی ہے. یہ ایک پرامن مستقبل کی جانب ایک مثبت اشارہ ہے تاہم اس کے باوجود ہمیں کسی خوش فہمی میں نہیں رہنا چاہیے کیونکہ معاملات کافی پیچیدہ ہیں اور ابھی مستقل امن کی حصول کی جانب بہت سفر کرنا باقی ہے.

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket