وزیر اعظم کا اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں دوٹوک موقف اور کرم معاہدے پر عملدرآمد کا آغاز

3 جنوری 2024 کو اسلام آباد میں نیشنل ایکشن پلان کی اپیکس کمیٹی کا اجلاس وزیر اعظم شہباز شریف کی زیرِ صدارت منعقد ہوا جس میں ملک میں جاری دہشتگردی اور ریاستی اداروں کے خلاف ہونے والے منفی پروپیگنڈا کی مختلف پہلوؤں کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔ اجلاس میں وزیر اعظم نے خیبرپختونخوا حکومت کی کارکردگی اور ترجیحات پر سوالات اٹھاتے ہوئے آن دی ریکارڈ کہا کہ دشمن کے ” گھس بیٹھیے” خیبرپختونخوا میں چھپے بیٹھے ہیں اور ریاستی اداروں کے خلاف زیادہ تر منفی پروپیگنڈا بھی وہی سے ہورہا ہے ۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق اجلاس میں آرمی چیف اور وزراء اعلیٰ سمیت اہم اداروں کے سربراہان بھی شریک ہوئے اور دہشتگردی کی جاری لہر کے علاوہ پروپیگنڈا کی شکل میں جاری ” ڈیجیٹل دہشتگردی ” سے جڑے معاملات اور اثرات پر نہ صرف تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا بلکہ بعض اہم شخصیات نے خیبرپختونخوا حکومت اور پی ٹی آئی کے رویے اور پالیسیوں پر بھی سوالات کھڑے کردیے کیونکہ شرکاء کے بقول خیبرپختونخوا ہی میں سب سے زیادہ دہشت گردی ہوتی آرہی ہے۔
اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور نے حسب معمول وفاقی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنانے ہوئے خود کو بری الذمہ قرار دیا اور کہا کہ وفاقی حکومت اور سیکورٹی ادارے پاک افغان سرحد پر دہشت گردوں کی امدورفت کو روکنے کے اقدامات کریں کیونکہ ان کے بقول یہ ان کی ذمہ داری ہے اور حملے اس وجہ سے قابو نہیں ہورہے کہ دہشت گرد افغان علاقوں سے داخل ہوتے آرہے ہیں۔
میڈیا کی بعض رپورٹس کے مطابق اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں وزیراعظم شہباز شریف اور وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ بھی ہوا ۔ اس موقع پر اکثر شرکاء نے دہشتگردی کو ملک کا بڑا مسئلہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ دہشت گردوں ، ان کی سہولت کاروں اور منفی پروپیگنڈا کرنے والے اندرونی اور بیرونی عناصر کے خلاف مزید گھیرا تنگ کیا جائے گا اور بدامنی پھیلانے والوں کے ساتھ مزید سختی کی جائے گی ۔ وزیر اعظم نے دوٹوک موقف اختیار کرتے ہوئے کہا کہ خیبرپختونخوا ان عناصر کا گڑھ بن گیا ہے جبکہ ڈیجیٹل محاذ پر بھی پاکستان اور اس کے اہم اداروں کے خلاف زہر اگلا جارہا ہے جس کی مزید اجازت نہیں دی جائے گی۔
انہوں نے اس موقع پر اسلام آباد پر پی ٹی آئی کی بار بار چڑھائی کو بھی سخت تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ جھوٹ اور منافرت کی بنیاد پر حقائق مسخ کرنے کی کوشش کی گئی جس سے کشیدگی میں اضافہ ہوا۔
دوسری جانب جس روز یہ اہم اجلاس منعقد ہوا اس دن افغانستان کے سرحدی علاقے صوبہ خوست سے پاکستان کی چیک پوسٹوں پر فائرنگ کی اطلاعات موصول ہوئیں اور عالمی میڈیا نے رپورٹ کیا کہ دونوں ممالک کی سرحدی فورسز کے درمیان جھڑپیں ہوئیں۔ کہا گیا کہ جمعہ کی رات کو ان سرحدی علاقوں پر دونوں اطراف کی سرحدی ٹروپس نے ایک دوسرے پر راکٹ برسائے اور شدید فائرنگ کا تبادلہ کیا گیا ۔ دریں اثنا افغان عبوری حکومت کے بعض ذمہ داران نے پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ محمد آصف کے اس دعوے کو غلط قرار دیا جس میں دوران انٹرویو انہوں نے کہا تھا کہ پی ڈی ایم حکومت کے دوران جب ان کی افغانستان کے تین اہم وزراء کے ساتھ ایک مذاکراتی نشست میں کالعدم ٹی ٹی پی کی کراس بارڈر اٹیکس سے متعلق بات چیت ہوئی تو افغان وزراء نے تقاضا کیا کہ پاکستان ٹی ٹی پی کو سرحدی علاقوں سے منتقل کرنے کے لیے ان کو 10 ارب روپے فراہم کرے ۔ افغان ذمہ داران نے اس دعوے کو بے بنیاد قرار دیا تاہم متعدد باخبر ذرائع اور ماہرین نے خواجہ آصف کے مذکورہ بیان کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ وہ درست کہہ رہے ہیں اور یہ کہ اس قسم کی تجویز نہ صرف یہ کہ زیر بحث آئی تھی بلکہ 2024 کے دوران اس پر عملدرآمد کا باقاعدہ آغاز بھی ہوا اور چین کی مفاہمتی کوششوں سے نومبر اور دسمبر کے مہینوں میں اس مبینہ ” ڈیل ” کے نتیجے میں ایک ابتدائی تجربے کے طور پر افغانستان کے سرحدی علاقوں میں مقیم کالعدم ٹی ٹی پی کے تقریباً 200 خاندانوں کو افغانستان کے صوبہ غزنی منتقل کرنے کا آغاز بھی ہوا ۔ ان ذرائع نے مزید بتایا کہ یہ پلان یا آپشن اب بھی زیر غور ہے۔
عقیل یوسفزئی

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket