عقیل یوسفزئی
یہ بات قابل افسوس ہے کہ افغانستان کے بعض وزراء اور سیاسی حلقے پاکستان اور افغانستان کے درمیان دوحہ میں قطر ، ترکی اور سعودی عرب کی کوششوں اور ثالثی کے نتیجے میں ہونے والے معاہدے کو پولیٹیکل پوائنٹ اسکورنگ کے لیے استعمال کررہے ہیں جس کے ردعمل میں نہ صرف یہ کہ اس معاہدے کی ناکامی کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے بلکہ پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے بھی بعض انٹرویوز میں سخت لہجہ استعمال کرتے ہوئے کہنا شروع کردیا ہے کہ اس معاہدے کی اہمیت یہ ہے کہ اس میں قطر اور ترکی جیسے قابل اعتبار ثالث موجود ہیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ یقینی طور پر یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ یہ معاہدہ واقعتاً درکار نتائج دینے میں کامیاب ہو جایے گا ۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا ہے کہ ہم نے دوست ممالک کے کہنے پر ٹی ٹی ٹی وغیرہ کی بجائے افغان عبوری حکومت کے ساتھ معاہدہ کیا ہے جس میں یہ بات صاف طور پر کہی گئی ہے کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہوگی ۔ خواجہ آصف کے بقول پاک افغان سرحد پر حد بندی والی ” زنجیریں” کہاں کہاں لگی ہوئی ہیں یہ سب کو معلوم ہے ۔
یہ مخالفانہ بحث اس وقت شروع ہوئی جب مذاکرات کے دوران افغان وفد کی قیادت کرنے والے وزیر دفاع ملا یعقوب اور بعض دیگر نے سوشل میڈیا ہینڈلرز پر غیر ضروری طور پر سفارتی نزاکتوں کے برعکس یہ بیان جاری کیا کہ قطر نے ان کے کہنے پر مجوزہ مسودے میں سے ” بارڈر ” کا لفظ ہٹایا ۔ پاکستان نے ان جزیات پر ردعمل دینے سے گریز کی پالیسی اختیار کی تاہم دوسری جانب سے اس ایشو کو بہت بڑی ” سفارتی کامیابی” کا نام دیا گیا ۔ عملاً جہاں چین اور بعض دیگر ممالک نے اس معاہدے کا خیر مقدم کیا وہاں چمن بارڈر اور بعض دیگر پر محدود امدورفت کا سلسلہ بھی شروع کردیا گیا اور توقع کی جارہی ہے کہ منگل کے روز طورخم بارڈر پر بھی امدورفت کا سلسلہ شروع ہو جائے گا ۔
دوسری جانب خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ سہیل آفریدی نے بھی پولیٹیکل پوائنٹ اسکورنگ کی اپنی پالیسی کے تسلسل میں صوبائی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ان کے بانی کے ” وژن” کو اپنایا گیا ہے اور یہ کہ صوبائی حکومت بند کمروں میں کیے جانے والے فیصلوں کے تحت افغان مہاجرین کو زبردستی افغانستان نہیں بھیجنے دے گی ۔ انہوں نے مزید کہا کہ وفاقی حکومت صوبے کے امن کے قیام میں صوبے کے ساتھ تعاون نہیں کررہی اور یہ کہ صوبے کو ناکارہ بلٹ پروف گاڑیاں دی گئی ہیں جن کو واپس کیا جائے گا ۔ اس پر ردعمل دیتے ہوئے وزیر مملکت طلال چوہدری نے کہا کہ وزیر اعلیٰ غلط بیانی سے کام لے رہے ہیں جن گاڑیوں کا وہ ذکر کررہے ہیں وہ نہ صرف عالمی معیار کی ہیں بلکہ وفاقی حکومت کے اہم شخصیات اور اداروں کے زیرِ استعمال بھی ہیں ۔
طلال چوہدری نے الزام لگایا کہ خیبرپختونخوا کی پی ٹی آئی حکومت نے آپنی پولیس کو دہشت گردوں کے آگے بے یار و مددگار چھوڑ کر پھینک دیا ہے جس کے باعث خیبرپختونخوا کو بدترین بدامنی کا سامنا ہے ۔
دوحہ معاہدے اور وفاقی ، صوبائی حکومت کے تعلقات کار کا مستقبل کیا ہوگا اس پر یقین کے ساتھ کچھ نہیں کہا جاسکتا تاہم اس بات پر اظہار تشویش ضرور کیا جاسکتا ہے کہ فریقین اس سنجیدگی اور ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے دکھائی نہیں دیتے جس کی ضرورت ہے ۔


