پیپلز پارٹی کے قائدین نے تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ ہونے والے مجوزہ مذاکراتی عمل کو قومی اتفاق رائے اور وسیع تر مشاورت کے ساتھ مشروط کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ قومی سلامتی سے متعلق ایک حساس اور پیچیدہ معاملہ ہے اس لیے لازمی ہے کہ تمام سیاسی، عسکری اور عوامی حلقوں اور طاقتوں کو اس مسئلے پر اعتماد میں لیا جائے۔
بے نظیر بھٹو کی برسی کی مناسب سے سکھر سندھ میں خیبر پختونخوا سے آئےصحافیوں کے ایک گروپ سے بات چیت کرتے ہوئے سابق وفاقی وزیر سید خورشید شاہ نے کہا کہ دہشت گردی کے خاتمے اور امن کے قیام کے لیے بینظیر بھٹو سمیت لاتعداد پارٹی ورکرز، عوام اور فورسز نے لازوال قربانیاں دی ہیں اگرٹی ٹی پی سمیت ایسی کسی بھی قوت کے ساتھ مذاکرات ہوتے ہیں تو اس کے دوران ان قربانیوں اور مستقبل کے ممکنہ چیلنجز کو سامنے رکھ کر سب کو اعتماد میں لیا جائے۔ ان کے مطابق موجودہ حکومت اپوزیشن سے بات چیت کیلئے تو تیار نہیں مگر پراسرار طریقے سے بعض ایسی قوتوں سے مذاکرات کر رہی ہے جنہوں نے پاکستان کی سلامتی اور جمہوریت کو چیلنج کیا ۔ان کے مطابق خارجہ پالیسی پر نظر ثانی کی اشد ضرورت ہے۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ پی پی پی اور اے این پی نے اپنے دور حکومت میں طالبان سے مذاکرات اور معاہدے سے قبل سب اسٹیک ہولڈرز کو نہ صرف اعتماد میں لیا تھا بلکہ جب فضل اللہ وغیرہ نے معاہدے کی خلاف ورزی کی تو ملک کی تاریخ کے سب سے کامیاب آپریشن کا آغاز کرکے ملاکنڈ ڈویژن سے ان کا خاتمہ کیااور ریکارڈ وقت میں متاثرہ علاقوں کی تعمیر نو اور آبادکاری کو یقینی بنایا۔ ان کے مطابق پیپلزپارٹی نے خیبر پختونخواہ کو دیگر اختیارات کے علاوہ صوبے کے نام کی صورت میں شناخت دی اور یہ پارٹی اب بھی وفاق کی علامت اور تمام صوبوں، قومیتوں کو جوڑنے کا ذریعہ ہے۔
اس موقع پر سابق وفاقی وزیر اور ممتاز دانشور پروفیسر این ڈی خان نے کہا کہ پاکستان میں جمہوریت کے قیام اور ملک میں امن کی بحالی کے لئے خیبر پختونخوا کے عوام اور سیاسی قوتوں نے بنیادی کردار ادا کیا ہے اور ملکی استحکام کے لیے ان کی قربانیوں اور کردار کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی نے یوم تاسیس کے تاریخی موقع پر اس کو منانے کے لیے پشاور کا انتخاب کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان ایک نازک علاقائی اور عالمی صورتحال سے گزر رہا ہے اس لئے جو بھی کرنا ہے اس کے لئے قومی اتفاق رائے ضروری ہے۔
اس موقع پر پارٹی کے صوبائی صدر نجم الدین خان نے کہا کہ مستقبل میں امن کا قیام سب کی ضرورت اور خواہش ہے تاہم اس کے لیے بہت ضروری ہے کہ سیاسی اختلافات سے قطع نظر قومی سلامتی کے تقاضوں کو سامنے رکھ کر سب کو اعتماد میں لیا جائے۔