ایک بارپھراحتجاج
تحریک انصاف کے بانی عمران خان نے ایک مرتبہ پھر احتجاج کی کال دی ہے اور یہ احتجاج اس بار راولپنڈی یا لاہور کی بجائے ڈی چوک اسلام آباد میں ہوگا۔ یہ وہی ڈی چوک ہے جہاں عمران خان 2014ء میں 126 دن دھرنا دینے کے دعویدار ہیں۔ حالانکہ وہ 126 دن دھرنا نہیں دیا گیا تھا بس سارا دن کنٹینر میں بیٹھ کر سازشوں کے جال بنے جاتے تھے یا دوسرے شہروں میں جلسے کیے جاتے تھے اور شام کو ایک تفریحی فنکشن کے طور پر دو چار سو لوگ جمع کرکے اس مجمعے سے خطاب کیا جاتا تھا۔ اس خطاب میں حسب معمول کوئی فیض والی بات نہیں ہوتی تھی بس سیاسی مخالفین کو غلط سلط ناموں سے پکارا جاتا تھا، ان پر لغو اور جھوٹے الزامات لگائے جاتے تھے، ان کی نقلیں اتاری جاتی تھیں اور انہیں برے القابات سے نوازا جاتا تھا۔
اس دھرنے اور احتجاج نے پاکستانی سیاسی تاریخ پر جو بداثرات مرتب کیے ہیں ان سے ملک و قوم تاحال نبردآزما ہیں اور طویل جدوجہد اور قربانی کے بعد ملکی معیشت گوڈوں پر چلنا شروع ہوئی ہے۔ معاشی اشاریے، شرح سود میں کمی، مہنگائی کی اوسط سنگل ڈیجیٹس تک آنا، بین الاقوامی مالیاتی اور مانیٹرنگ اداروں کی جانب سے مثبت اشارے اور سٹاک ایکسچینج کی تاریخی اڑان پی ٹی آئی قیادت سے برداشت نہیں ہو رہا۔
2014ء میں چینی صدر نے پاکستان کا دورہ کرنا تھا جس کے دوران مبینہ طور پر پچاس ارب ڈالرز تک کی سرمایہ کاری کے معاہدوں پر دستخط متوقع تھے جو پاکستان جیسی معیشت کے لیے یقیناً کسی ٹانک سے کم نہیں تھا۔ چینی صدر کا یہ دورہ دنیا میں صرف تین ممالک یا ان کی قیادت کے لیے ناقابل برداشت تھا۔ پہلے نمبر پر ہمارا ازلی دشمن بھارت ہے جو نہیں چاہتا تھا کہ چینی صدر پاکستان کا دورہ کریں اور اس دورے سے پاکستانی معیشت کو طاقت کا انجیکشن لگے۔ امریکہ بھی نہیں چاہتا تھا کہ پاکستان اور چین کے درمیان تعلقات اور تعاون اس حد تک بڑھیں کہ پاکستان کا امریکہ پر انحصار کم یا ختم ہو۔ اسی طرح اسرائیل کی بھی خواہش تھی کہ چینی صدر کا دورۂ پاکستان ملتوی ہو تاکہ پاکستان معاشی مشکلات کے بھنور میں پھنسا رہے اور پاکستان ایک ایسا ملک ہے جسے اسرائیل عربوں کا چوکیدار سمجھتا ہے اور اسے دنیا میں اگر کسی ملک سے خطرہ ہے تو وہ پاکستان ہے۔
ہمارے یہ تینوں بدخواہ نہیں چاہتے تھے کہ چین اور پاکستان کے مابین تعلقات نئی بلندیوں کو چھوئیں اور جس کے نتیجے میں پاکستان اپنی مشکلات پر قابو پانے میں کامیاب ہو۔ بالکل یہی خواہش عمران خان اور تحریک انصاف نامی انتشاری ٹولے کی بھی تھی۔ یہ ٹولہ چاہتا تھا کہ پاکستان کی معاشی مشکلات میں اضافہ ہو تاکہ اسے سیاسی بیانیہ بنانے میں سہولت ہو اور وہ جو کچھ اول فول بکتے رہیں عوام اس پر یقین کریں اور ان کا ساتھ دیں۔
عوام کی غالب اکثریت نے اگرچہ ان کی لغو الزام تراشی اور سیاسی دھماچوکڑی کو مسترد کیا مگر اس وقت کی عدالتوں میں موجود گنتی کے چند جج حضرات نے آج کی طرح ان کا ساتھ دے کر ایک تو چینی صدر کا دورہ ملتوی کروانے میں کامیابی حاصل کی اور دوسرے اس وقت کی اچھی بھلی چلتی ہوئی نواز شریف کی حکومت کو عدم استحکام سے دوچار کر کے اس کی راہ میں روڑے اٹکائے۔
جس کے نتیجے میں 2017ء میں پھلتا پھولتا پاکستان جس کے بارے میں آئی ایم ایف چیف کا کہنا تھا کہ ‘‘پاکستان نے ہماری توقع سے زیادہ کامیابی حاصل کی ہے اور ہم اس کے ساتھ مزید تعاون کے لیے ہمہ وقت تیار ہیں’’، اسی پاکستان کو عمران خان نے اس حالت تک پہنچا دیا کہ ایک ارب ڈالرز کے لیے عمرانی وزراء آئی ایم ایف چیف کے قدموں میں لوٹتے رہتے تھے مگر قرضہ ملنا محال ہو چکا تھا۔
آج ایک مرتبہ پھر پاکستان میں شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس منعقد ہو رہا ہے، جسے معاشی ماہرین ملکی معیشت کے لیے نیک شگون قرار دے رہے ہیں۔ اس اجلاس سے پاکستان کا ایک پرامن روپ دنیا کے سامنے آنے اور معیشت کو سہارا ملنے کی توقع ہے۔ اور یہ سب کچھ عمران خان اور ان کی پارٹی کی برداشت سے باہر ہے۔ ان کی خواہش ہے کہ پاکستانی عوام اسی طرح مہنگائی کی چکی میں پستے رہیں، معاشی حالات بد سے بدتر ہوتے رہیں اور لوگ اسی طرح بھوک کے باعث اپنے بچے ذبح کرتے رہیں تاکہ ان کی سیاست قائم رہے اور انہیں حکومت پر تنقید کے لیے مواد دستیاب ہو۔
ان کی دوسری خواہش یہ ہے کہ پرامن جلسوں سے ان کی امیدیں پوری ہوتی نظر نہیں آ رہیں اس لیے اب انہوں نے احتجاج کے نام پر پرتشدد احتجاجی مظاہرے منعقد کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ ملک میں خون خرابہ ہو اور اس کے نتیجے میں وہ رہائی پانے میں کامیاب ہوں۔ وہ اپنے انجام دیے گئے کرتوتوں کے سبب جیل میں ہیں، انہیں چاہئے کہ اپنے مقدمات کا عدالتوں میں سامنا کریں۔ عدالتوں پر چونکہ انہیں اعتماد ہے اور وہاں سے انہیں اچھا خاصا ریلیف بھی مل رہا ہے مگر وہ قانونی طریقے سے رہائی پانے کی بجائے بار بار انقلاب کی ڈینگیں مار رہے ہیں۔
خودساختہ انقلابی کا یہ عجیب انقلاب ہے جس سے اس نے اپنے بچوں کو دور رکھا ہوا ہے، اپنے خاندان کو اس کے قریب نہیں آنے دے رہے ہیں مگر دوسروں کے بچوں کو ریاست اور سیکیورٹی فورسز کے سامنے کھڑا کرکے یہ انقلاب کے داعی بن رہے ہیں۔ درحقیقت عمران خان اور اس کی پارٹی کی شدید خواہش ہے کہ کارکن باہر نکلیں، وہ پولیس اور سکیورٹی فورسز پر حملے کریں، انہیں اشتعال دلائیں اور پندرہ بیس لاشیں گریں جس سے انہیں رہائی نصیب ہو اور وہ انقلاب کے نعرے لگا کر باہر آئیں۔
ان کے یہ منصوبے ملک اور عوام دشمنی پر مبنی ہیں، عوام کو ان سے ہوشیار رہنا چاہئے۔ ان کے منصوبوں سے نہ ہی ملک ترقی کر سکتا ہے اور نہ ہی ان کے نتیجے میں خوشحالی آنے کی امید ہے۔ ریاست کو ان حرکات سے مرعوب ہونے کی بجائے ان سے سختی کے ساتھ نمٹنے کی ضرورت ہے۔ شرپسندوں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے، معصوم شہریوں کو ورغلانے والوں کو اس کی اجازت نہ دی جائے کہ وہ ایک بار پھر احتجاج سے ملکی معیشت کو پٹری سے اتارنے میں کامیاب ہوں۔ نجی قومی اور فوجی املاک و تنصیبات پر حملہ آور شرپسند اور ان کے سہولت کار کسی رعایت کے مستحق نہیں۔ ایک بار پھر احتجاج کے نام پر انہیں ریاست کو یرغمال بنانے کی اجازت نہ دی جائے۔
وصال محمد خان