انسدادِ دہشت گردی کی عدالتوں کی کارکردگی
یہ بات قابل تشویش ہے کہ اگر ایک طرف خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومت اور اس کے اداروں کی جانب سے غیر اعلانیہ طور پر پرو طالبان پالیسیاں اختیار کی گئی ہیں اور صوبائی حکومت عسکری اداروں کے خلاف باقاعدہ مہم چلاتی آرہی ہے تو دوسری طرف عدالتیں بوجوہ گرفتار دہشت گردوں کو سزائیں دینے سے یا تو گریز کرتی رہی ہیں یا ان کو ضمانتیں دینے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں ۔
دستیاب ڈیٹا کے مطابق 2020 سے لیکر سال 2023 مختلف حملوں میں ملوث 6550 دہشت گردوں کا چالان کیا گیا جن میں سے صرف 774 افراد کو سزائیں سنائی گئیں جو کہ محض 11 فی صد بنتا ہے ۔ ان میں سے بھی دوسری عدالتوں نے بعد میں اکثر کو ضمانتیں دیں اور حالت یہ رہی کہ صرف 104 دہشت گردوں کی سزائیں برقرار رہیں جو کہ 1.5 فی صد بنتا ہے ۔
2023 کے دوران نیکٹا کی جانب سے فراہم کردہ ڈیٹا کے مطابق دہشت گردی کے زیر التواء مقدمات میں بلوچستان 34 فی صد کے ساتھ سرفہرت ہے جبکہ خیبر پختونخوا 32 فی صد کے تناسب سے دوسرے نمبر پر ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان دونوں صوبوں میں سسٹم کی ناکامی کے باعث کچھ خاص ڈیلیور نہیں کیا جارہا ۔
ایک اور رپورٹ کے مطابق اس وقت ملک میں 605 مقدمات زیر التواء ہیں ۔ اس میں بھی بلوچستان اور خیبرپختونخوا ہی سرفہرت ہیں ۔ بلوچستان میں 208 ، خیبرپختونخوا میں 195 ، سندھ میں 115 ، پنجاب میں 48 جبکہ گلگت بلتستان میں زیر التواء مقدمات کی تعداد 39 ہیں ۔ 2020 اور 2023 کے درمیان 217 مقدمات میں سزائیں سنائی گئیں جن کی تعداد پنجاب میں 152 ، سندھ میں 33 ، خیبرپختونخوا میں محض 14 جبکہ بلوچستان میں 10 رہی ۔
فراہم کردہ تفصیلات کے مطابق دہشتگردی میں ملوث افراد کی بریت کا تناسب سزائیں دینے کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے ۔ 278 دہشت گردوں کو مختلف مقدمات میں عدم شواہد کی وجہ سے بری کردیا ہے بلکہ ہے ۔ اس کی تفصیل کے مطابق پنجاب میں 60 ، سندھ میں 28 ، خیبرپختونخوا میں 26 جبکہ بلوچستان میں 148 ( سب سے زیادہ ) دہشت گردوں کو بری کردیا گیا ۔
ان تین برسوں کے دوران 1650 مقدمات زیر التواء رہے ، 6550 کا چالان پیش کیا گیا جن میں 774 کو سزائیں ہوئیں جبکہ 911 کو بری کردیا گیا ۔ مذکورہ تفصیلات کے رو سے 465 دہشت گردوں نے بریت کی اپیلیں دائر کیں جن میں 104 کی سزاوں کو برقرار رکھا گیا جبکہ 90 کے خلاف سزائیں ختم کردی گئیں ۔
پاکستان میں اس وقت انسداد دہشتگردی کی 91 عدالتیں قائم ہیں جن کی تفصیل کے مطابق پنجاب میں 23 ، سندھ میں 32 خیبرپختونخوا میں 13 جبکہ بلوچستان میں ان عدالتوں کی تعداد محض 9 ہے ۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو سب سے زیادہ متاثرہ صوبوں یعنی خیبرپختونخوا اور بلوچستان کو درپیش سیکورٹی چیلنجز کے اسباب کا ایک اور پہلو سامنے آجاتاہے اور وہ عدلیہ کے ” کردار” سے متعلق ہے جو کہ بوجوہ دہشت گردوں کو سہولتیں فراہم کرتا نظر آتا ہے ۔ اور اسی کا نتیجہ ہے کہ سینکڑوں گرفتار دہشت گرد جب ضمانتیں پاکر نکل آتے ہیں تو کچھ عرصہ بعد وہ پھر سے اپنی سرگرمیوں کا آغاز کرلیتے ہیں اور اس ضمن میں درجنوں اہم کمانڈروں اور جنگجووں کی مثالیں دی جاسکتی ہیں ۔
عقیل یوسفزئی