پی ٹی آئی کے اندرونی اختلافات عروج پر
خیبرپختونخوا کی حکمران جماعت پی ٹی آئی کو بوجوہ بدترین اندرونی اختلافات کا سامنا ہے جبکہ مرکزی قیادت اور بانی چیئرمین کی اہلیہ ، ہمشیرہ کے درمیان بھی اہم ایشوز پر پیدا ہونے والے اختلافات قابو سے باہر ہوتے نظر آرہے ہیں ۔ دوسری جانب ان اختلافات اور گروپ بندیوں نے صوبائی کابینہ اور حکومت کی کارکردگی کو بھی بری طرح متاثر کرکے رکھ دیا ہے۔
وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور نے گزشتہ ہفتے پارٹی کے اہم قائدین عاطف خان اور ارباب شیر علی کو سابق وزیر شکیل خان کی مبینہ حمایت پر عہدوں سے فارغ کردیا تو اس پر کافی کشیدگی پیدا ہوئی۔ اگلے مرحلے پر بعض وزراء اور مشیروں کو ” آگے پیچھے” کردیا گیا تو معاملات مزید خراب ہوگئے۔ عہدوں سے فارغ کرنے والوں میں عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی مشیر مشعال یوسفزئی بھی شامل ہیں جن پر الزام لگایا گیا کہ وہ فرح گوگی کی طرح بشریٰ بی بی کا نام استعمال کرتے ہوئے کرپشن کرتی رہی ہیں۔ موصوفہ نے اپنی بے دخلی پر بانی چیئرمین سے جیل میں ملاقات بھی کی مگر خود کو بچانے میں ناکام رہی۔ گزشتہ روز انہوں نے پارٹی کے سینئر رہنما اور سابق وزیر شوکت یوسفزئی کے خلاف انتہائی سخت لہجہ استعمال کرتے ہوئے کہا کہ موصوف نہ تین میں ہیں نا تیرہ میں اور یہ کہ شوکت یوسفزئی اپنی اہمیت بڑھانے کے لیے بے سر و پا بیانات دے رہے ہیں۔
یہ تمام بیان بازی بانی چیئرمین کی اس واضح ہدایت کے باوجود کھلے عام کی جارہی ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ پارٹی رہنما ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی نہیں کریں گے ۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ پارٹی پر بانی چیئرمین اور مرکزی قائدین کی گرفت کمزور پڑ چکی ہے۔
صوبہ خیبرپختونخواہ کو عمران خان کا ” بیس کیمپ ” سمجھا جاتا ہے اور اس صوبے کی انصافی حکومتیں 2013 کے بعد مسلسل خان کی پولیٹیکل پوائنٹ اسکورنگ اور بارگیننگ کے لیے افرادی قوت کے علاوہ سرکاری وسائل بھی فراہم کرتی آرہی ہیں تاہم یہ مورچہ بھی گروپ بندیوں کے باعث گرتا نظر آرہا ہے اور صوبائی حکومت اندرونی اختلافات کے باعث اتنی کمزور ہوگئی ہے کہ اسے گزشتہ روز ایک بار پھر صوبائی اسمبلی کا بلایا گیا اجلاس ملتوی کرنا پڑا۔
سابق صوبائی وزیر شکیل خان نے ڈٹے رہتے ہوئے گزشتہ روز اپنے خلاف لگے الزامات کی جوڈیشل انکوائری کا مطالبہ کرنے کے علاوہ یہ بھی کہا کہ وہ اس معاملے پر نیب سے بھی رجوع کرسکتے ہیں۔
بات صرف یہی تک محدود نہیں رہی ہے بلکہ اس قسم کی اطلاعات بھی زیر گردش ہیں کہ خفیہ اداروں کو سابق گورنر شاہ فرمان اور صوبے سے تعلق رکھنے والے بعض دیگر لیڈروں اور فیض حمید نیٹ ورک کے درمیان 9 مئی کے بعد رابطے کاری کے شواہد بھی ملے ہیں۔ اس پس منظر میں بھی کسی مجوزہ کارروائی کے خدشات ظاہر کیے جارہے ہیں۔
اس تمام کھینچا تانی نے پنجاب کے بعد خیبرپختونخوا میں بھی پارٹی کو تنظیمی طور پر بہت کمزور کردیا ہے تاہم اس کا ایک افسوسناک پہلو یہ بھی ہے کہ صوبے کی گورننس کے ایشوز اس صورتحال سے بری طرح متاثر ہورہے ہیں اور ان ایشوز میں سیکیورٹی کے چیلنجر سرفہرت ہیں۔
— عقیل یوسفزئی