Voice of Khyber Pakhtunkhwa
Wednesday, July 30, 2025

سیکیورٹی فورسز کے خلاف پی ٹی آئی کی قرارداد

عقیل یوسفزئی
صوبے کی حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کی پولیٹیکل کمیٹی نے ایک ہنگامی قرارداد میں مطالبہ کیا ہے کہ پاکستانی فوج کے دستے خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں سے نکل جائیں اور صوبے کی سیکیورٹی معاملات پولیس فورس کے حوالے کیے جائیں ۔ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ صوبائی حکومت آئین کے آرٹیکل 245 کے تحت فوج طلب کرنے کے اختیار اور آپشن پر نہ صرف نظر ثانی کرے بلکہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ عوامی شکایات کے ازالے کے طور پر فوجی دستوں کی بیرکس میں واپسی کو ممکن بنایا جائے ۔
مذکورہ قرارداد میں فوج کے بارے میں ایسے سخت الفاظ استعمال کیے گئے ہیں جو کہ شاید کالعدم ٹی ٹی پی اور بلوچ لبریشن آرمی نے بھی کھبی استعمال کئے ہو ۔ قرارداد میں یہاں تک کہا گیا ہے کہ پاک فوج ہی صوبے کی ” بدامنی” کی ذمہ دار ہے ۔ اگر اس ” قرارداد” کو دوسرے الفاظ میں ریاست یا مسلح افواج کے خلاف ایک باقاعدہ ” چارج شیٹ ” کا نام دیا جائے تو غلط نہیں ہوگا ۔ اور غالباً اسی کا ردعمل ہے کہ ماہرین اور تجزیہ کاروں نے اس قرارداد پر نہ صرف یہ کہ حیرت اور تشویش کا اظہار کیا ہے بلکہ وہ اسے ریاست کے خلاف صوبے کی حکمران جماعت کی باقاعدہ بغاوت کا نام بھی دے رہے ہیں کیونکہ جن الفاظ اور الزامات کا استعمال کیا گیا ہے ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی ۔ اس سے قبل جب گزشتہ روز ضلع خیبر کے علاقے تیراہ میں ایک افسوسناک واقعہ پیش آیا تو متعدد صوبائی وزراء نے پولیٹیکل پوائنٹ اسکورنگ کے لیے سوشل میڈیا پر ایسے بیانات پوسٹ کیے جو کہ ” غداری” کے زمرے میں آتے ہیں جبکہ اس پارٹی کے ایک ممبر قومی اسمبلی نے باقاعدہ عوام کو مشتعل کرنے کی کوشش کی ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر ریگولر اور گوریلا وار میں کولیٹرل ڈیمیج کے واقعات ہوتے ہیں اور جاری جنگ میں بھی معتدد بار بعض افسوسناک واقعات ہوئے ہیں تاہم اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اپنی فورسز کو سیاسی مخالفت کی آڑ میں اس طرح کٹہرے میں لاکر کھڑا کیا جائے ۔ ایک حساس اور جنگ زدہ صوبے کی حکمران پارٹی کی جانب سے اس قسم کے الزامات اور مطالبات کے سامنے آنے سے ان گروپوں اور قوتوں کے بیانیے کو تقویت ملی ہے جو کہ پاکستان کی ریاست اور عوام کے خلاف لڑائی میں مصروف عمل ہیں اور شاید اسی کا ردعمل ہے کہ بعض سیاسی پارٹیاں آن دی ریکارڈ پی ٹی آئی کو کالعدم ٹی ٹی پی کا ” پولیٹیکل ونگ ” قرار دیتے آرہے ہیں ۔
صوبائی حکومت کی انہی پالیسیوں اور رویوں کے باعث آج آدھا خیبرپختونخوا طالبان اور ان کے اتحادیوں کے مسلسل حملوں کی زد میں ہے اور اب تو جنوبی اضلاع اور قبائلی علاقوں میں طالبان نے مین شاہراہوں پر قبضے بھی شروع کردیے ہیں ۔ صوبے کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور کا آبائی ضلع ڈیرہ اسماعیل خان سال 2024 کے بعد بدترین نوعیت کے حملوں کی زد میں ہے مگر صوبائی حکومت وہاں بھی اپنی رٹ بحال نہیں کرسکتی ۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر صوبائی حکومت اور حکمران جماعت پی ٹی آئی کی خواہش اور مطالبے پر فوجی دستوں کو واپس بلایا جاتا ہے تو پولیس اور دیگر سول ادارے اس قابل ہیں کہ صوبے کی بگڑی ہوئی سیکیورٹی صورتحال کو کنٹرول کیا جاسکے ؟ اس سوال کا جواب نفی میں ہے ۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ حالات کی نزاکت کا ادراک کرتے ہوئے وفاقی حکومت اور ملٹری اسٹبلشمنٹ کے ساتھ بیٹھ کر کوئی مشترکہ لائحہ عمل تیار کیا جائے اور ایسے اقدامات اور بیانات سے گریز کیا جائے جن سے ریاست اور عوام کے درمیان فاصلے بڑھنے کا راستہ ہموار ہونے کا خدشہ ہو ۔ پولیٹیکل پوائنٹ اسکورنگ کی بجائے صوبائی اپیکس کمیٹی کا اجلاس طلب کرکے ان معاملات کو حل کرنے کی عملی کوشش کی جائے اور غیر ضروری محاذ آرائی سے گریز کا راستہ اختیار کیا جائے کیونکہ خیبرپختونخوا مزید تجربات اور کشیدگی کا متحمل نہیں ہوسکتا ۔

Shopping Basket