پی ٹی آئی میں اختلافات کی اطلاعات

پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے 15 اکتوبر کو اسلام آباد میں اعلان کردہ احتجاج کو رکوانے کے لیے جہاں ایک طرف مولانا فضل الرحمان اور بعض وفاقی وزراء میدان میں نکل آئے ہیں تو دوسری جانب شنگھائی تعاون کانفرنس کے تناظر میں پی ٹی آئی کے بعض سنجیدہ رہنماء بھی اس مجوزہ احتجاج کے حق میں نہیں ہیں اور ان کا موقف ہے کہ اس سے نہ صرف پاکستان کی بدنامی ہوگی بلکہ ریاست اور پی ٹی آئی کے فاصلوں اور کشیدگی میں مزید اضافے کا راستہ بھی ہموار ہوگا ۔

پارٹی ذرائع اور میڈیا رپورٹس کے مطابق جو اہم رہنما احتجاج کی مخالفت کررہے ہیں ان میں بیرسٹر گوہر، رؤف حسن ، اسد قیصر اور شاہ فرمان کے علاوہ وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور بھی شامل ہیں تاہم پنجاب سے تعلق رکھنے والے رہنما نہ صرف احتجاج کے حق میں ہیں بلکہ وہ پی ٹی آئی خیبرپختونخوا کی قیادت اور صوبائی حکومت کی مخالفت پر بھی اتر آئے ہیں ۔ عجیب بات یہ ہے کہ اس گروپ میں اکثر وہ رہنما شامل ہیں جن کی اکثریت ملک سے باہر ہیں ۔ خیبرپختونخوا سے عمر ایوب وہ ایک قابل ذکر مرکزی لیڈر ہیں جو کہ احتجاج کے حق میں ہیں۔

پی ٹی آئی کے ایک اہم رہنما اور رکن اسمبلی نے رابطے پر بتایا کہ پنجاب اور دوسرے صوبوں کی پارٹی قیادت نے تمام ذمہ داریاں پی ٹی آئی اور صوبائی حکومت پر چھوڑ رکھی ہے اور یہ خود ہوم سروس یا سوشل میڈیا کے ذریعے احتجاج کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔ ان کے مطابق 4 اکتوبر کے احتجاج کا 80 فی صد انحصار بھی خیبرپختونخوا پر رہا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس وقت بھی ہمارے دو وزراء سمیت تقریباً 680 کارکن پنجاب اور وفاقی حکومت کے پاس زیر حراست ہیں جبکہ 80 سے زائد سرکاری ملازمین اور خیبرپختونخوا کی درجنوں گاڑیاں بھی ان کی تحویل میں ہیں ۔ اب ہم مزید قربانیاں اور گرفتاریاں دینے کی پوزیشن میں نہیں ہیں اور نہ ہی اتنے جلد کارکنوں کو قائل کرسکتے ہیں۔

عقیل یوسفزئی

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket